بھتا خوری پھر شروع 

423

اس خبر پر تو ہر طرف سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے کہ کئی سالہ کراچی آپریشن کے باوجود بھتا خور پھر کس طرح سرگرم ہوگئے۔ اب تو کھلم کھلا بھتا طلب کیا جارہا ہے اور عدم ادائیگی پر دھمکیاں دی جارہی ہیں اس مرتبہ خاص نشانہ بلڈرز ہیں حالانکہ بلڈرز تو کثیر المنزلہ عمارتوں پر سپریم کورٹ کی پابندی سے پہلے ہی پریشان تھے ان کو اس پابندی کے بعد سے جائز کاموں کے لیے بھی زیادہ رشوت دینی پڑ رہی ہے جب وہ ناجائز کام کرانا چاہیں تو وہ آسانی سے ہوجاتے ہیں۔ بس صرف رقم بڑھانی پڑتی ہے۔ ظلم تو یہ ہے کہ اب تو بھتا طلب کرنے والوں کے نام بھی سامنے آگئے ہیں لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ رینجرز اور پولیس کو بھی آگاہ کردیاگیا تھا لیکن اس برس کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔یہ بات پہلی مرتبہ نہیں ہوئی ہے۔ کئی واقعات میں مسلح افراد کی تصاویر اور ویڈیو فوٹیج بھی منظر عام پر آچکی ہے لیکن پولیس ملزمان کو نہیں پکڑ سکی۔ جبکہ شبہ کے نام پر شہر سے درجنوں افراد غائب کردیے جاتے ہیں۔ اگر تعمیرات پر پابندی کے دوران بلڈرز سے بھتا طلب کیا جارہا ہے تو کام شروع ہونے کے بعد کیا حال ہوگا۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس جانب خصوصی توجہ دیں۔ یوں بھی اب اسٹریٹ کرائمز میں اضافے کی شرح بھی بڑھ گئی ہے۔ شہر کے سنجیدہ حلقے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ کئی برس سے جاری کراچی آپریشن کی کامیابی کے دعووں کے باوجود بھتے بازی جاری ہے اور اس پر کوئی سنجیدہ ایکشن نہیں لیاگیا۔ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کہیں یہ مختلف گروہوں کو انتخابات میں فنڈز فراہمی کے لیے آسان راستے فراہم کرنے کی حکمت عملی تو نہیں کراچی کے عوام کی مشکل آپریشن کے نتیجے میں کم نہیں ہوئی پہلے یہ کام صرف متحدہ کررہی تھی پھر اے این پی والے بھی کود گئے اس کے ساتھ ساتھ لیاری امن کمیٹی نے بھی بھتے لینے شروع کردیے لیکن اب متحدہ کے بھی دو تین مزید ٹکڑے ہوگئے ہیں اب تو کوئی یہ بھی نہیں جانتا کہ یہ کون سی متحدہ سے ہے لندن، کراچی، آفاق یا عشرت العباد والی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ جو نظام پاکستان میں چل رہاہے اس کے تحت تو ان سب کو اپنا اپنا کام کرنے کی اجازت ہوگی۔ یوں عوام دوہرے ٹیکس کی طرح دوہرے بھتوں کا بھی شکار ہوجائیں گے۔