اِس موضوع پہ لکھنے کی ترغیب ایک اخبار میں چند روز پہلے شائع ہونے والے خط سے ملی جس میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کے طلبہ میں خود کشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی نشان دہی کی گئی ہے۔ مراسلہ نگار نے اعداد و شمار کا حوالہ تو نہیں دیا لیکن یہ ضرور کہا ہے کہ بڑھتی ہوئی فیسوں اور بے روزگاری کے شدید چیلنج کے باوجود آج کے نوجوان سے جس کارکردگی کی توقع ہے، اُس کا دباؤ ماضی سے شدید تر ہے اور یہ ہے مسئلے کی جڑ، ہوسکتا ہے حقائق یہی ہوں لیکن ہمارے نظام تعلیم میں اردو‘ اسلامیات اور مطالعہ پاکستان جیسے مضامین اب طلبہ کے لیے بوجھ معلوم ہوتے ہیں۔ پبلک سروس کمیشن میں کام کرنے والے ایک ممتاز پروفیسر کہتے ہیں کہ انہیں اس وقت بڑا صدمہ پہنچا جب ایم فل کی ڈگری کے حامل ایک اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے کا ایک امیدوار یہ بتانے سے قاصر رہا کہ سعودی عرب جغرافیائی طور پر پاکستان کی کس سمت میں واقع ہے۔ آج کل میٹرک اور کالج کے کسی بھی طالب علم کی مارکس شیٹ دیکھ لیں‘ اسلامیات اور مطالعہ پاکستان میں ان کے نمبر بہت کم ملیں گے‘ دیگر مضامین کے نمبر زیادہ ہوتے ہیں‘ انگلش میڈیم اسکولوں میں تو بہت ہی برا حال ہے۔ ہم تو بلاول کی اردو سے پریشان ہیں عمران خان کہتے ہیں ان کے صاحب زادے سلمان اور قاسم بھی بلاول کی طرح کی اردو بولتے ہیں اب کوئی پوچھے یا تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی والے خود ہی بتادیں کہ اسلامیات اور مطالعہ پاکستان میں اگر انہیں کوئی سوال دیے جائیں تو بلاول‘ قاسم اور سلمان پاس بھی ہوں گے یا نہیں؟
انگلش میڈیم کی کیا بات کی جائے یہاں تو اردو میڈیم اسکولوں کا برا حال ہے یہاں کے طلبہ بھی خیر سے ایسے ہیں‘ اور جب پوچھا جائے کہ نمبر کم کیوں لیے تو کہتے ہیں کہ اکثر سوال آؤٹ آف کورس تھے بلاشبہ کبھی کبھی پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں پیش ہونے والے امیدواروں سے کیے جانے والے جوابات نہایت دلچسپ ہوتے ہیں اسی ضمن میں ایک صاحب کا واقعہ حد سے زیادہ افسوس ناک ہے سن لیجیے کہتے ہیں پبلک سروس کمیشن میں شرعی وضع قطع کے حامل ایک امیدوار تشریف لائے جن کے بارے میں بتایا گیا کہ اسلامک اسٹڈیز میں گولڈ میڈلسٹ ہیں ان سے پوچھا گیا کہ تین غزوات کے نام لیں۔ امیدوار نے غزو بدر اور غزو احد کے نام تو ٹھیک ٹھیک بتا دیے اور پھر خاموش ہوگئے اور تیسرے غزوہ کا نام یاد دلانے کی ابھی ہمت بندھائی گئی ایک جنگ وہ بھی تھی جس میں اللہ کے نبی ؐ نے یہ کہہ کر کہ آج جسے عَلَم عطا کروں گا فتح اُس کا مقدر ہو گی، پرچم سیدنا علیؓ کے ہاتھ میں دے دیا تھا امیدوار نے فوراً کہا ’جنگِ سومنات‘ ممتحن کہتے ہیں کہ یہ ان کے لیے خود کشی کا مقام تھا۔
تعلیمی اداروں میں خود کشی کا رجحان حقیقی یا خیالی ہے اس کا تو علم نہیں البتہ دنیا کی دو مشہور و معروف یونیورسٹیوں آکسفورڈ اور کیمبرج میں یہ بحث کب سے چھڑی ہوئی ہے۔ چند ہی سال پہلے برطانیہ میں قومی سطح پر اسٹوڈنٹس یونین کے ایک سروے میں یہ انکشاف کیا گیا کہ یونیورسٹی سطح پر دس میں سے ایک طالب علم کسی نہ کسی مرحلے پہ خود کشی کے بارے میں سوچتا ہے اسی کے پیش نظر اِس یونیورسٹی میں ذہنی صحت کے ضمن میں مشورے یا کونسلنگ کی جو سہولت فراہم کی گئی ہے نفسیاتی اور اعصابی موضوعات پہ تحقیقی کام کرنے والے ایک بین الاقوامی ادارے نے اِس ضمن میں دو بڑے عوامل کی نشان دہی کی ہے۔ ایک تحقیقی رپورٹ میں ایسے کسی اعداد و شمار کا کوئی حوالہ نہیں جن سے پتا چلے کہ دنیا میں آنے والے سب بچوں میں سے پیدائشی کمزور شخصیت رکھنے والوں کا تناسب کیا ہے آکسفورڈ اور کیمبرج کی مثال اِس لیے سب سے اوپر ہے کہ پوسٹ گریجویٹ تعلیم کو ایک طرف کر دیں تو بھی اِن یونیورسٹیوں میں انڈر گریجویٹ سطح پہ طالب علم کو جس تعلیمی پریشر سے گزرنا پڑتا ہے، ہمارے اداروں میں اُس کا تصور مشکل سے کیا جائے گا۔ ایک طالب علم نے اپنے بلاگ میں لکھا کہ امتحان سر پہ ہیں اور یومیہ کلاسیں اِس کے علاوہ۔
پھر بھی اختتامِ ہفتہ تک دو الگ الگ لکھاریوں پہ پیپر تیار ہونے چاہئیں جن کے ایک ایک ناول کی ضخامت پانچ پانچ سو صفحات ہوگی۔ اب سوال یہ ہے اور یہ سوال سب سے ہے کہ تعلیم کی نوعیت کیا ہونی چاہیے؟ ہائر ایجوکیشن بھی کچھ نہیں کرسکے گا یہ محض اپی ایچ ڈی کے لیے اور یونیورسٹیز خاص طور پر نجی تعلیمی داروں کی نگرانی کے لیے دروازے کھول کر بیٹھا ہوا ہے اور نام ہے خواندگی کا اعلیٰ معیار۔ اور ادھر حال یہ ہے کہ سومنات جیسی لڑائیوں کو کہاں سے کہاں ملانے والے طلبہ اور طالبات، اس کا مطلب کیا لیا جائے؟ کہاں کی بات کہاں ملا دی۔۔۔
بہت پرانی بات ہے لطیفہ ہی سمجھ لیں‘ ایک اسکول میں ایجوکیشن آفیسرز کی نگرانی میں معائنہ ہورہا تھا ایک کلاس میں طالب علم سے پوچھا گیا کہ سومنات کا قلعہ کس نے ڈھایا تھا ایک طالب علم نہیں جواب دیا کہ میں تو کل اسکول ہی نہیں آیا‘ دوسرے سے پوچھا گیا تو جواب ملا کہ قسم لے لیں میں نے نہیں کیا‘ حد تو اس کلاس کے استاد نے کردی کہ سومنات کا قلعہ انہی میں سے کسی نے ڈھایا ہے لیکن اب ڈر کے مارے بتا نہیں رہے یہ مراسلہ پڑھ کر اندازہ ہوا کہ تبدیلی نہیں آئی بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کب آئے گی۔