اسٹیبلشمنٹ سے شکوہ کیوں؟

489

پاکستانی سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی اکثر عوام کے دلوں کو چھو لینے والی باتیں کرتے ہیں اور پھر پاکستانی میڈیا اس کو خوب خوب شائع کرتا ہے۔ ایک طبقہ انہیں دانشور کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ربانی صاحب جس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں بلاشبہ وہ اس کے لیے دانشور کا درجہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے تازہ ترین بات یہ کی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ 18 ویں ترمیم سے حاصل حقوق چھیننا چاہتی ہے ایک دوسرے کے کام میں غیر آئینی مداخلت بند کی جائے۔ ٹیکنوکریٹ حکومت کی آئین میں گنجائش نہیں۔ آئین سب سے بالاتر ہے۔ یہ باتیں تو بڑی اچھی اچھی لگتی ہیں۔ لیکن آگے چل کر جو باتیں انہوں نے کی ہیں وہ بڑی غیر آئینی باتیں ہیں۔ پتا نہیں جوش جذبات میں وہ اکھڑ جاتے ہیں یا طے شدہ منصوبے کے تحت۔ بہر حال فرمانے لگے کہ عرب کلچر اسلامی نہیں۔ پاکستان میں متعارف نہیں کراسکتے۔ اسکولوں میں ملکی تاریخ ٹھیک طرح سے نہیں پڑھائی جاتی۔ نصاب میں بچوں کو جہاد کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اگر پنجاب حکومت بھگت سنگھ کو نصاب میں شامل کرنا چاہتی ہے تو اسے کرنے دیں کیا بھگت سنگھ نے انگریز کے خلاف جہدو جہد نہیں کی تھی۔ میاں صاحب کے بیان کے دونوں ہی حصے قابل اعتراض ہیں۔مسئلہ ہے کہ یہ لوگ مخصوص حالات میں مخصوص محفل میں خطاب کرکے میڈیا کے ذریعے اس کی تشہیر کرتے ہیں۔ ان کی یہ بات کہ اسٹیبلشمنٹ حقوق چھیننا چاہتی ہے بالکل غلط ہے۔ اگر حکومت نے پاکستانی تعلیمی اداروں کے طلبہ کو یونین سازی کے حق سے محروم نہیں کیا ہوتا تو ملک کو نئی سیاسی قیادت مل رہی ہوتی۔ اس امر کا فیصلہ ہوئے بھی کئی برس گزر گئے کہ طلبہ یونینوں کے انتخابات کرائے جائیں گے۔ جب وفاق میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اس وقت بھی طلبہ کو ان کے حق سے محروم کیاگیا اور سندھ میں تو پیپلزپارٹی کا تسلسل ہے اور 18 ویں ترمیم کے بعد یہ کام صوبوں کا ہے تو پھر سندھ کے تعلیمی اداروں میں انتخابات کیوں نہیں ہوتے۔ کیا اسٹیبلشمنٹ نے روکا ہے۔ ایسا تو نہیں ہے عوام کو ان کے حق سے خود محروم کیا جائے اور اسٹیبلشمنٹ سے شکوہ کیا جائے۔ حکمران عوام کی طرف جتنے حقوق اور اختیارات منتقل کریں گے حکومت اور جمہوریت اس قدر مضبوط ہوں گے۔ میاں رضا ربانی صاحب یہ بھی بتا دیں کہ سندھ میں ان کی حکومت بلدیات کے کئی درجن محکمے ہڑپ کرچکی ہے اور بلدیاتی اداروں کو ان کے حق سے محروم کررہی ہے کیا یہ اسٹیبلشمنٹ نے کہا تھا۔ یہ درست ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اختیارات کا ارتکاز چاہتی ہے اور اس کا حل اختیارات کی تقسیم اور نچلی سطح تک منتقلی ہے۔ یہ کام کرنے سے اسٹیبلشمنٹ نہیں روکتی بلکہ وسائل پر کنٹرول کی خواہش اس کا سبب ہے۔ اگر یہ کنٹرول لینے کے ساتھ ساتھ کچھ کام بھی کردیا جائے تو شاید اعتراض نہ ہو۔ لیکن سالڈ ویسٹ کا محکمہ اور اس کے فنڈز تو اپنے پاس رکھنے کی خواہش ہے اور شہر سے کچرا اٹھانے کا کام بلدیہ کے حوالے ہے۔ میاں رضا ربانی پہلے بھی اسلام کے بارے میں بے معنی اورلا یعنی گفتگو کرتے رہے ہیں لیکن اب تو حد کردی ہے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ آئین سب سے بالاتر ہے اور یہی آئین قرآن و سنت کو بالاتر قرار دیتا ہے لیکن میاں صاحب فرمارہے ہیں کہ پاکستان کے نصاب میں جہاد کی ترغیب دی جاتی ہے۔ گویا قرآن جس چیز کی ترغیب دیتا ہے اسے وہ غلط قرار دے رہے ہیں اور جواباً بھگت سنگھ کو نصاب میں شامل کرنے کی سفارش کررہے ہیں۔ کیا یہ مشورہ بھی اسٹیبلشمنٹ نے دیا ہے۔ ایک اور بات جو رضا ربانی صاحب نے کہی کہ عرب دنیا میں جو کلچر رائج ہے وہ اسلامی نہیں لیکن وہ جو کلچر پاکستان میں رائج کرنا چاہتے ہیں یا ان کی پارٹی رائج کرنا چاہتی ہے وہ کہاں سے اسلامی ہوگیا۔ عرب دنیا کے کلچر میں تو بہت سی باتیں اسلامی ہیں اور وہ اسلامی کلچر سے قریب ترین بھی ہے لیکن جو کلچر میاں صاحب ظاہری طور پر بھی اختیار کیے ہوئے ہیں اس کا تو اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام تو مردوں کو عورتوں سے شباہت کرنے کو منع کرتا ہے لیکن یہاں چوٹی کو فروغ دیا جارہا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ آئین کے خلاف کوئی بات کی جائے تو ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اس آئین میں قرآن و سنت کو بالاتر قانون تسلیم اور قرار دیاگیا۔ لیکن میاں صاحب بھگت سنگھ کو نصاب میں شامل کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ غیر آئینی اختیارات مختلف اداروں کو ان کے اپنے ادارے نے بھی دینے کی حمایت کی ہے۔ایک روز قبل مشورہ دے رہے تھے کہ پارلیمنٹ اداروں کو ان کی سمت اور دائرہ کار بتائے جبکہ اس پارلیمنٹ کے بنیادی حقوق فوج کے حوالے کررکھے ہیں۔ وہی بنیادی انسانی حصوں کے بہت سے حقوق سے عوام کو محروم کرنے کے عمل کی مخالفت کرلیتے، ہاں یہ بات درست ہے کہ پاکستان کے نصاب میں بہت سی کمزوریاں ہیں لیکن کمزوریاں یہ ہیں کہ قوم کے بچوں کو تحریک اور نظریہ پاکستان نہیں پڑھایا جاتا۔ قائداعظم کی تقریر کا ایک حصہ پڑھایا جاتا ہے دوسرا نہیں۔ قائداعظم کو سیکولر تو کہا جاتا ہے لیکن ان کو سچا مسلمان ثابت کرنے والے واقعات نصاب میں نہیں ہیں۔ جہاد کی ترغیب، حقداروں کو اس کا حق دینا، اپنے وعدے پورے کرنا، حکام کو امانت داری کے ساتھ حکومت کرنے کا حکم دینا۔ اللہ کے دیے ہوئے احکامات کے مطابق فیصلے کرنے والے اسباق نصاب سے غائب ہیں انہیں کیا اسٹیبلشمنٹ نے نکالا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ صرف دباؤ ڈالتی ہے فیصلے تو حکمران کرتے ہیں۔ غلط فیصلے نہ کریں اسٹیبلشمنٹ تو ایک بے نام ہدف ہے اس کا نام ہر کوئی لے سکتا ہے۔ ذمے دار آپ خود ہ یں