تیسری عالمی جنگ کی دہلیز ؟

400

عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس کی طرف سے دنیا کے جنگ کی دہلیز پر کھڑا ہونے کے انتباہ کی روشنی میں دنیا کے سیاسی، اقتصادی اور عسکری منظر نامے پر نظر دوڑائی جائے تو شمالی کوریا جنگ کی وہ دہلیز ہے جس سے آگے تباہی اور آگ کا ایک سمندر ہے۔ یہ شاید دو یا اس سے زیادہ قطبی ہوتی ہوئی دنیا کی سرخ لکیر ہے جسے عبور کرنے سے دنیا کا نقشہ ہی تبدیل ہوسکتا ہے۔ پوپ نے جنگ کا انتباہ اٹلی میں دوسری جنگ عظیم میں جنوبی اٹلی کا دفاع کرتے ہوئے مرنے والے 7860 امریکی فوجیوں کے قبرستان کے دورے کے موقع پر کیا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے دوسری جنگِ عظیم کی ہولناکیوں کا ذکر بھی کیا جس میں لاکھوں جانیں ضائع ہو گئی تھیں۔ پوپ کا یہ پہلا انتباہ نہیں بلکہ وہ کئی مواقع پر انسانیت کو درپیش تباہ کن حالات کی نشان دہی کر چکے ہیں۔ شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان میزائل تجربات کے بعد پیدا ہونے والی حالیہ کشیدگی کے موقع پر بھی عیسائیوں کے مذہبی پیشوا ایک اور عالمگیر جنگ کی تباہی کی بات کر چکے ہیں۔ دنیا جس تیزی سے تقسیم کی طرف بڑھ رہی ہے اور جس طرح نئے مصنوعی خطرات گھڑے اور مصنوعی اہداف کھڑے کیے جارہے ہیں اور اپنی ان ’’ایجادات‘‘ کو قبولیت عامہ عطا کرنے لیے نئے بیانیے تخلیق کیے جارہے ہیں اور ان بیانیوں کو جس طرح زمانے کو ازبر کرانے کے لیے میڈیا اور وسائل کا بڑے پیمانے پر سہارا لیا جا رہا ہے وہ دنیا میں بتدریج ایک خوفناک سیاسی اور عسکری تقسیم اور اس کے بعد مسلح تصادم میں ڈھلتا ہوا محسوس دکھائی دے رہا ہے۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد تیسری عالمی جنگ کی بات محض تصوراتی کہانی معلوم ہوتی تھی اب یہ تصور حقیقت میں بدل رہا ہے۔ یونی پولر دنیا میں مشرق سے مغرب تک تنہا دوڑنے والا امریکا پیش آمدہ حالات کا اہم کھلاڑی ہے مگر اس کے مقاصد کے آگے بند باندھنے اور طاقت کا تواز ن بحال رکھنے کے لیے اس وقت چین نمایاں ملک کے طور پر اُبھر رہا ہے۔ چین کا اقتصادی اور عسکری حجم تیزی سے وسعت پزیر ہے اور اسی وسعت کے آگے اسپیڈ بریکر کھڑا کرنے کی کوشش میں بہت سے بے تدبیریاں اور حماقتیں ہو رہی ہیں۔ صرف چین ہی نہیں روس بھی ماضی کے زخم مندمل کرکے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی راہوں میں مزاحم ہونے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ اس نو تشکیل منظر میں روس اپنے سردجنگ کے ساتھی بھارت سے محروم ہو چکا ہے جب کہ امریکا علاقائی سیاست میں اپنے قریبی اتحادی پاکستان سے الگ ہو چکا ہے۔ دونوں کے مدار اور محاذ بدل چکے ہیں۔ پاکستان امریکا مخالف اتحاد کا حصہ بنتا جا رہا ہے جب کہ بھارت امریکا کے قریب سے قریب تر ہو رہا ہے۔ جنوبی چین کے سمندروں میں اثر رسوخ اور بالادستی کا خطرناک کھیل جاری ہے۔ امریکا، جاپان، بھارت، جنوبی کوریا اور آسٹریلیا اس محاذ پر ایک کشتی کے مسافر بن چکے ہیں۔ اسی خطے میں سرخ پرچم کا حامل شمالی کوریا درحقیقت نئے عالمی تصادم کی سرخ لکیر بن چکا ہے۔ اس لکیرکو پار کرنے کی کوشش میں کوئی ایسی حماقت سرزد ہو سکتی ہے جن پر انسانیت صدیوں تک آنسو بہاتی رہے گی۔ یوں شمالی کوریا پر امریکا اور اتحادیوں کا حملہ امریکی فوجی بیڑے پرل ہاربر پر جاپانیوں کا حملہ ثابت ہو سکتا ہے۔ جب 1941 کو سپیدۂ سحر نمودار ہونے سے پہلے جاپانی فدائین بحری بیڑے پر ٹوٹ پڑے تھے۔ جس کے بعد امریکا نے مغضوب الغضب ہو کر جنگ کا پانسہ پلٹنے کا راستہ اپنایا تھا۔ اس ردعمل اور انتقام نے دوسری جنگ عظیم کی المناک اور انسانیت کش داستان کو جنم دیا تھا۔ دنیا عملی طور ایٹم بم جیسے مہلک اور تباہ کن شیطانی ہتھیار سے آشنا ہوئی تھی۔ امریکا مقامی کھلاڑیوں جنوبی کوریا اور جاپان کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کرکے شمالی کوریا کو تباہ کرنے کی دھمکیاں دے رہا تھا اور شمالی کوریا امریکا تک مار کرنے والے میزائلوں کے پے در پے تجربات کرکے امریکا کو جوابی طور پر للکار رہا ہے۔
جنوبی چین کے سمندروں پر اثر رسوخ امریکا کے لیے انا کا معاملہ ہی نہیں بلکہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہو کر رہ گئی ہے۔ اس معاملے میں امریکا کی سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن نے سینیٹ میں بیان دیتے ہوئے دوٹوک انداز میں کہا تھا کہ: ’’جنوبی چین کے پانیوں میں مصنوعی جزیروں کی تیاری روک دی جائے اور ان جزیروں تک چین کی رسائی کسی طور قابل قبول نہیں ہوگی‘‘۔ امریکی وزیر خارجہ کے اس انداز بیاں سے یہ خدشات گہرے ہونے لگے ہیں کہ امریکا چین کو اس کام سے باز رکھنے کے لیے طاقت کے استعمال سے گریز نہیں کرگے گا۔ طاقت کا استعمال دو ملکوں تک محدود نہیں رہتا ایسے میں جب دونوں طاقتور ممالک اپنے اتحادیوں کے جتھے بنا کر ان کے ساتھ مشترکہ دشمن اور مشترکہ مفاد کے بندھن میں بند چکے ہوں تصادم کو محدود رکھنا آسان نہیں ہوگا۔ امریکا کو خوف ہے کہ جنوبی چین کے سمندروں پر عوامی جمہوریہ چین کی بالادستی کا مطلب اہم ترین علاقے پر فیصلہ کن برتری ہے اور یوں اتحادی ملک رفتہ رفتہ امریکا سے رخ موڑ کر چین کی جانب متوجہ ہونا شروع ہوں گے اور اس طرح یہ امریکا کے عالمی وجود کے سمٹنے کا نقط�ۂ آغاز ہو سکتا ہے۔ خود امریکا کی اسلحہ ساز ملٹی نیشنل کمپنیاں جاپان اور جنوبی کوریا کو اسلحے کی کھپت کی ایک اہم مارکیٹ کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ یہی معاملہ جنو بی ایشیا کا بھی ہے جہاں پاکستان اور بھارت کی کشیدگی اور افغانستان کی مستقل شورش کی بہت سی وجوہ میں سے ایک اسلحہ کی مارکیٹ ہونا بھی ہے۔