گجرات کی سیاست سے مسلمان بے نشان ہو گئے 

592

وزیر اعظم نریندر مودی کی ریاست گجرات میں 2002 کے ہولناک مسلم کُش فسادات کے بعد جس میں تین ہزار سے زیادہ مسلمان جاں بحق ہو گئے تھے، مسلمان سیاست سے بھی بے نشان ہوگئے ہیں، جن کی ریاست میں آبادی نو فی صد سے زیادہ ہے۔
2012 میں گجرات کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں صرف دو مسلمان منتخب ہوئے تھے۔ گجرات اسمبلی میں کل 182نشستیں ہیں اور اگر مسلم آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو اسمبلی میں 16مسلم اراکین ہونے چاہئیں۔ گو پچھلے دس برس کے دوران مسلمانوں نے قتل و غارت گری کے سمندر سے گزرنے کے بعد ’’حقیقت پسندی‘‘ کا سہارا لیا ہے اور اپنے قاتلوں کی جماعت بھارتیا جنتا پارٹی میں شامل ہونے کی کوشش کی ہے اور اسی حکمت عملی کے تحت 2015 کے بلدیاتی انتخابات میں مسلمانوں نے بھارتیا جنتا پارٹی کے ساتھ ہاتھ ملا کر 350نشستیں حاصل کی تھیں لیکن انہیں دسمبر میں ہونے والے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں نریندر مودی کی جماعت سے ٹکٹ ملنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ ویسے بھی 2012 کے انتخابات میں اور اس سے پہلے 2007 اور 2002 کے انتخابات میں بھارتیا جنتا پارٹی نے کسی بھی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا تھا۔ اس بار امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ بھارتیا جنتا پارٹی جمال پور کھاڈیا کی نشست کے لیے عثمان گھانچی کو اپنا امیدوار نامزد کردے جو بی جے پی کے ساتھ ایک عرصہ سے وابستہ ہیں اور اس حلقہ میں مسلمانوں کی تعداد بھی 61فی صد ہے، لیکن اس کے باوجود گجرات کی سیاست میں مسلمانوں کی یتیمی ختم نہیں ہوگی۔
گجرات کے مسلمانوں کو بھارتیا جنتا پارٹی سے کوئی توقع وابستہ نہیں لیکن افسوس کہ کانگریس کے کٹہور رویہ سے بھی انہیں سخت مایوسی رہی ہے۔ گجرات میں نریندر مودی کی جماعت کی طرف سے ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا جو زہر گھولا گیا ہے اس کے پیش نظر کانگریس مصلحت اور خوف کا شکار ہے اور وہ ہندو ووٹروں کی خاطر مسلمانوں کو اپنا امیدوار نامزد کرنے سے اجتناب برتتی ہے اور مسلمانوں کو ’’اچھوت‘‘ سمجھ کر ان سے فاصلہ رکھے ہوئے ہے۔ اس رویے کے دفاع میں کانگریس کے رہنماؤں کا یہ استدلال ہے کہ گزشتہ دس برس کے دوران مسلمانوں نے خود انتخابی عمل سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے اور اس عرصہ میں 50فی صد مسلمان ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کیا ہے۔ جب مسلمان ووٹ نہیں دیتے تو ان میں سے امیدوار کھڑے کرنے سے کیا فائدہ۔ لیکن مسلمانوں کے ساتھ کانگریس کا یہ رویہ پچھلے دس برس کے تجربے پر مبنی نہیں ہے بلکہ یہ رویہ گزشتہ تین دہائیوں سے نمایاں رہا ہے۔ 1985 میں جب کانگریس کو زبردست انتخابی فتح ہوئی تھی اور اسمبلی کی 182نشستوں میں سے اس نے 149نشستیں جیتیں تھیں اس وقت اسمبلی میں مسلم اراکین کی تعداد صرف سات تھی جب کہ اس وقت کانگریس کے امیدواروں کی حیثیت سے کم سے کم بارہ مسلمان اسمبلی کا انتخاب جیت سکتے تھے۔
ویسے بھی گجرات کی سیاست میں ہمیشہ مسلمانوں کی بے بسی کا عالم رہا ہے۔ 1977کے بعد سے گجرات سے دو سے زیادہ مسلمان پارلیمنٹ کے رکن منتخب نہیں ہوسکے ہیں۔ ان میں سے ایک بھروچ سے احمد پٹیل ہیں اور دوسرے احسان جعفری تھے جو احمد آباد سے لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے تھے اور جنہیں 2002 کے خورنریز فسادات کے دوران خود ان کے حلقہ میں نہایت بہیمانہ طریقہ سے قتل کردیا گیا تھا۔ ہندو بلوائیوں نے انہیں ہاتھ پاؤں اور سر قلم کرکے ٹکرے ٹکرے کیے تھے اور بعد میں ان کو نذر آتش کر دیا تھا۔ ان کے اہل خانہ نے مدد طلب کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو ٹیلی فون کیا تھا لیکن انہوں نے ٹیلی فون ریسیو کرنے سے انکار کردیا تھا۔
اس وقت سے گجرات سے پارلیمنٹ میں صرف ایک مسلمان رکن ہیں۔ یہ محمد بھائی محمد بھائی پٹیل ہیں جو احمد پٹیل کے نام سے مشہور ہیں اور کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے سیکرٹری ہیں۔ احمد پٹیل سب سے پہلے 1977میں لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے تھے اس کے بعد 1980 اور 1985 میں لوک سبھا کا انتخاب جیتے رہے لیکن 1989 میں ناکامی کے بعد انہیں ایوان بالا راجیا سبھا کا رکن منتخب کر لیا گیا اور جب سے وہ برابر راجیا سبھا کے رکن منتخب ہوتے چلے آرہے ہیں۔
احمد پٹیل اپنے سیاسی اثر و رسوخ کے وجہ سے سیاست میں کامیاب ہیں لیکن جہاں تک گجرات کے مسلمانوں کی اکثریت کا تعلق ہے سیاست میں ان کی بے کسی نمایاں رہی ہے۔ اور فروری 2002 کے ہولناک فسادات کے نتیجے میں انہیں اقتصادی اور معاشرتی طور پرسنگین محرومیوں کا سامنا ہے۔ مسلم کُش فسادات کے دوران مسلمانوں کو 3800 کروڑ روپے کا نقصان ہوا تھا جس میں ان کے مکانات، جائداد اور روزگار تباہ ہوگیا تھا۔ اس کی وجہ سے مسلمان ابھی تک اقتصادی مسائل کا شکار ہیں۔ فسادات کے نتیجے میں ڈھائی لاکھ مسلمان بے گھر ہو گئے تھے۔ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت نے ان کی آباد کاری کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ فسادات کے پندرہ سال بعد بھی ہزاروں مسلمان امدادی کالونیوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں سے بیش تر مسلمان روزگار سے محروم ہیں اور شدید عسرت کا سامنا کر رہے ہیں۔
فرقہ وارانہ کشیدگی کی وجہ سے ہندو اور مسلم آبادی الگ الگ علاقوں میں بٹ گئی ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت غریب اور بدحال علاقوں میں گھر کر رہ گئی ہے جہاں مکانات نہایت خستہ اور مخدوش حالت میں ہیں، یہاں صاف پانی اور صفائی ستھرائی کا انتظام نہیں ہے۔ اور خواتیں اور نوجوان جرائم پیشہ گروہوں کے یرغمالی بن گئے ہیں۔ بہت سے مسلمان جن کے مکانات امیر علاقوں میں ہیں وہ اپنے مکانات میں جانے سے محروم ہیں کیوں کہ اس علاقے کے ہندو انہیں واپس آنے سے روکنے کے لیے انہیں ڈراتے دھمکاتے ہیں اور حکومت تحفظ دینے سے صاف انکاری ہے۔
اگلے ماہ گجرات کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہورہے ہیں، دور دور تک مسلمانوں کا نہ کوئی چہرہ نظر آتا ہے اور نہ ان کی آواز سنائی دیتی ہے، اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ گجرات کی سیاست میں مسلمان یکسر ملیا میٹ ہو کر رہ گئے ہیں۔