آساں ’لکھنے‘ کی کرتے ہیں فرمائش 

1006

کیا زمانہ تھا کہ لکھنے والے جو کچھ لکھتے تھے، پڑھنے والے فوراً سمجھ جاتے تھے۔ بلکہ جو کچھ نہیں لکھتے تھے وہ بھی سمجھ لیتے تھے۔ بعض ماہر اور مشّاق پڑھنے والے تو ایسے ہوتے تھے جو لکھی ہوئی سطور کو پڑھنے کے بجائے صرف بین السطور ہی پڑھتے رہتے تھے۔ ہمارے مربی و مشفق، ہمارے محترم استاد جناب اطہر ہاشمی تو آج بھی ’’بین السطور‘‘ ہی لکھتے ہیں۔
اب تو زبانِ میر سمجھنے والے رہے نہ زبانِ میرزا۔ اس کے باوجود لوگ ہمیں چچا غالب سمجھ کر یہ کہا کرتے ہیں کہ میاں لکھتے خوب ہو:
مگر اپنا ’’لکھا‘‘ تم آپ سمجھے یا خدا سمجھے
دنیا کی اسی ناسمجھی سے دِق ہو کر ایک شاعر نے ایک شعر کہا، اور کیا خوب کہا کہ:
اب تو زندوں میں نہیں کوئی سمجھنے والا
میں نے اے اہلِ قبور ایک غزل لکھی ہے
سنا ہے، کراچی کے جس قبرستان میں جا کر انہوں نے یہ شعر سنایا، وہاں کے مُردے پھڑک اُٹھنے کے بجائے بھڑک اُٹھے۔ کہنے لگے:
’’مردہ شعرا کی پلٹن ہی ہماری نیند میں کھنڈت ڈالنے کو کیا کم تھی کہ اب مردُود شعرا بھی غزل تھام تھام کر یہیں کا رُخ کرنے لگے‘‘۔
یہ کہتے ہوئے تمام مُردانِ قبرستان اپنی اپنی قبروں سے اَدبدا، اَدبدا کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور شاعر صاحب مارے ڈر کے بھاگ کھڑے ہوئے۔ کئی دنوں تک سرسامی بخار میں مبتلا رہے۔ آخر ہمارے چچا چودھری چراغ دین چکڑالوی نے اُن کے سرہانے جا کر انہیں سمجھایا:
’’مُردوں سے پنگا لینا مناسب نہیں ہوتا۔ زندوں کو غزل سنا کر اگر بھاگنا بھی پڑے تو کم ازکم بخار تو نہیں آتا۔ بس ملبوس پر سے انڈوں اور ٹماٹروں کے داغ دھلوانے پڑتے ہیں۔۔۔ حالاں کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘‘۔
ڈر تو انہیں چچا کو دیکھ کر بھی لگا تھا، کیوں کہ ہمارے چچا چودھری چراغ دین چکڑالوی کا جثہ اور ان کی ہیئت بھی اب زندہ انسانوں جیسی نہیں رہ گئی ہے۔ لباس بھی وہ سفید (کافوری) کفن ہی کے رنگ کازیب تن کرنے لگے ہیں۔ مگر چچا کو دیکھ کر پیدا ہونے والا خوف اِس خیال سے دُور ہوا کہ اہل قبور کوثر و تسنیم سے دُھلی ہوئی زبان استعمال کیا کرتے تھے، اپنی گفتگو میں لفظ ’’پنگا‘‘ استعمال نہیں کرتے تھے۔
یوں تو اس قسم کی باتوں کا ایک جواب خود چچا غالبؔ نے بھی دیا تھا کہ:
آساں کہنے کی کرتے ہیں فرمائش
گویم مشکل، وگرنہ گویم مشکل
مگر دوسرے مصرعے میں بھی چچا نے وہی حرکت کی، جس کا اُن پر الزام تھا۔ اب نئی نسل کو کون بتائے کہ یہاں ’’گویم‘‘ کا مطلب I am going. نہیں ہے۔ اُن کی اسی بات کو اگر ہم اپنے حوالے سے کہیں تو یوں کہنا پڑے گا:
’’لکھیں تو مشکل، نہ لکھیں تو مشکل‘‘
جب کہ ہمارے چچا چودھری چراغ دین چکڑالوی فرماتے ہیں کہ:
’’پُتّر! ساری مشکلات تیرے لکھنے ہی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ تو اگر نہ لکھے تو تیرے قارئین کسی مشکل میں نہ پڑیں‘‘۔
عرض کیا:
’’مگر نہ لکھیں تو ہم خود مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔ کیا کریں؟ خیر، خدا حلّالِ مشکلات ہے!‘‘
یہ سنتے ہی چچا جیسا معتبر شخص بھی ہمارے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا:
’’دیکھ بیٹا۔۔۔ بے شک خدا حلّالِ مشکلات ہے۔۔۔ مگر ساری مشکل تیرے اِس ’’حلّال‘‘ جیسے مشکل لفظ ہی نے پیدا کی ہے، آسان الفاظ لکھا کر آسان!‘‘
عرض کیا: ’’چچا! بات یہ ہے کہ الفاظ مانوس نہ رہیں تو مشکل سمجھے جانے لگتے ہیں۔ ایک روز اپنے بیٹے کے سامنے اِس عاجز کے منہ سے نکل گیا کہ میاں تم نے تو ہمیں دِق کر دیا ہے۔ پوچھنے لگا ابو یعنی کیا کر دیا ہے؟ بتایا کہ عاجز کر دیا ہے، پوچھا یعنی Humble?کہا کہ بھئی تنگ کرکے رکھ دیا ہے۔ بولا میں نے کب آپ کو Tease کیا ہے؟ آپ ہی مشکل مشکل اُردو بولتے رہتے ہیں‘‘۔
چچا بولے: ’’سچ تو کہتا ہے۔ اب بھلا ۔۔۔ ادبدا ادبدا کر اُٹھ کھڑے ہونے ۔۔۔ نیند میں کھنڈت ڈالنے ۔۔۔ اور جثہ و ہیئت۔۔۔ کا مطلب تم کس کس کو سمجھاتے پھروگے؟ ۔۔۔ لکھ تو بیٹھے ہو!‘‘
عرض کیا: ’’کسی کو بھی نہیں ۔۔۔ کیوں کہ سمجھائیں تو کس زبان میں سمجھائیں؟ اگر ’’ادبدا کر‘‘ کا مطلب ’’کثرت سے اور شدّت سے‘‘ بتائیں تو کثرت اور شدّت کا مطلب بھی بتانا پڑے گا۔ کھنڈت ڈالنے کا مطلب ’’خلل ڈالنا‘‘ اور ’’تتر بتر کرنا‘‘ کہیں تو کہہ بیٹھنے کے بعد ان الفاظ کا مطلب بھی سمجھانا پڑے گا اور جثہ و ہیئت کا مطلب بتائیں تو بھلا کس زبان میں بتائیں؟ ایک مزے کا قصہ سنیے۔ ایک محفل میں ہمارے منہ سے نکل گیا کہ اب مشاعروں کی روایت ختم ہو رہی ہے، اسی سے لوگوں کا تلفظ بھی خراب ہو رہا ہے۔ شعر سن کر کم از کم درست تلفظ تو معلوم ہو جاتا تھا۔ ایک صاحبزادی کو ہماری بات خوش آئی۔ فرمانے لگیں جی انکل، مشاعرے ختم ہونے سے شاعروں کا بھی خانہ خراب ہو رہا ہے۔ اپنی اسٹوڈنٹ لائف میں ہم لوگ شاعروں کو Celebrity سمجھ کر ان سے ہیلو ہائے کرتے تھے، ان سے آٹوگراف لیتے تھے۔ محترمہ کی یہ بات سن کر ہمارا ناریل چٹخ گیا۔ پہلے تو ہم نے اُس بی بی سے کہا کہ اے عزیزہ! جو الفت اور جو اپنائیت چچا جان کہنے میں ہے وہ انکل میں کہاں؟ اور جو تہذیب اور جو ادب آداب ’’سلام دُعا کرنے‘‘ سے آتا ہے، وہ ’’ہیلو ہائے‘‘ سے کیسے آئے؟ پھر پوچھا کہ یہ بتاؤ بیٹی کہ اِس ’’سیلی بریٹی‘‘ کا لفظی مطلب کیا ہوتا ہے؟ چچا یقین کیجیے کہ وہ کُڑی ہمیں اس کا مطلب نہ بتا سکی۔ اس لفظ سے مانوس ہونے کے باوجود مطلب نہ بتا سکی۔ ہمیں مفہوم سمجھانے کی البتہ کوشش کی۔ لیکن اگر اُسے اُردو پڑھائی گئی ہوتی تو ’’نام وَر۔۔۔ قابل تعظیم شخص ۔۔۔ یا مشہور و مشاہیر‘‘ کے لفظی معانی بھی بآسانی بتا سکتی تھی۔ اُسے انگریزی رٹوا تو دی گئی ہے، مگر اُس کے اپنے ناریل کے اندر کا گودا اُسے استعمال نہیں کرنے دیا گیا ہے‘‘۔
چچا تو خیر اپنی گردن پر ہلتا ہوا اپنا ناریل مزید ہلاتے ہوئے آگے چلے گئے۔ مگر ہم اپنے اُن اُستادوں کو یاد کرنے لگے جو ہمیں مشکل الفاظ کے معانی بھی یاد کروایا کرتے تھے اور لغت دیکھنے کی عادت بھی ڈلواتے تھے۔ اب یہ دونوں باتیں نہیں رہیں۔
ایک روز ایک محفل میں ایک قصہ اشفاق احمد مرحوم نے بھی سنایا تھا۔ کہنے لگے کہ ہمارے ایک دوست کا سندھ کے شہر جیکب آباد میں تبادلہ ہوگیا۔ وہاں انہیں بڑا سا بنگلہ ملا۔ بڑے اصرار سے ہمیں جیکب آباد آنے کی دعوت دیا کرتے تھے۔ ایک بار چند دوستوں نے طے کیا کہ جیکب آباد جاکر اُس کا بنگلہ دیکھ ہی لینا چاہیے، سو پہنچ گئے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ہم دانشور لوگ جہاں اکٹھے ہوجائیں وہاں کوئی نہ کوئی بحث شروع ہوجاتی ہے۔ پس وہاں بھی ایک لفظ کے معنی پر بحث شروع ہوگئی۔ گھمسان کا رن پڑا تو دوست سے کہا گیا کہ لغت لاؤ۔ اُس نے کہا میرے گھر میں لغت نہیں ہے۔ ہم باہر نکلے۔ قریبی آبادی کے قریبی گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا آپ کے گھر میں لغت ہے؟ جواب ملا نہیں ہے۔ اگلے گھر میں پوچھا، پھراُس سے اگلے گھر میں پوچھا، پھر اُس سے اگلے گھر میں پوچھا۔ کہیں سے لغت نہیں ملی۔ ایک گھر سے ایک صاحب ایسے نکلے جو اچھے خاصے پڑھے لکھے تھے، مگر لغت اُن کے گھر میں بھی نہیں تھی۔ میں نے اُن سے کہا:
’’یہ کیسا شہر ہے جہاں کسی کے گھر میں لغت نہیں ہے‘‘۔
وہ صاحب مسکرائے اور کہنے لگے:
’’صاحب! ہم لوگ بڑے سیدھے سادے لوگ ہیں۔ ہم ایسا کوئی لفظ استعمال ہی نہیں کرتے جس کے معنی ہمیں معلوم نہ ہوں‘‘۔