چار نومبر کو سعودی فرماں روا شاہ سلمان نے کرپشن کی تفتیش کے لیے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی سربراہی میں وسیع اختیارات کی حامل سپریم کمیٹی کے قیام کے بارے میں فرمان جاری کیا تھا جس کے چند گھنٹے بعد گیارہ شہزادوں، چار اہم وزیروں اور متعدد سابق وزراء کو نہایت برق رفتاری سے گرفتار کر لیا گیا اور نہایت پر تعیش ہوٹل میں نظربند کر دیا گیا۔ سعودی حکومت چاہے کتنا ہی دعویٰ کرے کہ اہم شخصیات کی اچانک یہ غیر معمولی گرفتاریاں ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کے لیے عمل میں لائی گئی ہیں لیکن نا قابل تردید تاثر یہ ہے کہ عملی طور پر یہ شاہی خاندان میں اقتدار کی جنگ ہے جس کا مقصد 34سالہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی حیثیت کو مضبوط اور مستحکم کرنا ہے۔ جو شہزادے اور وزراء گرفتار کیے گئے ہیں ان سے ولی عہد کو خطرہ تھا کہ کہیں یہ ان کا تختہ نہ الٹ دیں۔ ان میں سب سے زیادہ خطرہ سابق سعودی فرماں روا، شاہ عبداللہ کے 65سالہ صاحب زادے متعب بن عبداللہ سے تھا جو طاقت ور نیشنل گارڈ کے وزیر تھے اور اس عہدے پر وہ اپنے والد کے زمانہ سے فائز تھے۔ ان کے ساتھ، ارب پتی شہزادہ الوالید بن طلال کی دولت اور ان کے اثر و رسوخ سے بھی انہیں خطرہ تھا۔ سابق وزیر خزانہ ابراہیم الآصف کو بھی ولی عہد اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے کیوں کہ وہ شہزادہ الولید بن طلال کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ شہزادہ الولید کے بیٹے شہزادہ خالد بن الولید کی شادی ابراہیم الآصف کی ہم شیرہ سے ہوئی ہے۔
ممتاز تاجر صالح کمال بھی ولی عہد کی نظروں میں کھٹکتے رہے تھے کیوں کہ یہ سابق ولی عہد شہزادہ نایف کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں، شہزادہ نایف ولی عہد کے عہدے سے برطرفی کے بعد سے شاہی محل میں نظربند ہیں۔ ان کے ساتھ اسامہ بن لادن کے بے حد مالدار بھائی بکربن لادن کو بھی ولی عہد اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے اس لیے وہ بھی گرفتار کر لیے گئے ہیں۔
مغربی دارالحکومتوں میں یہ خبریں عام ہیں کہ ولی عہد محمد بن سلمان کو اگلے سال کے اوائل میں ان کے والد شاہ سلمان اپنا وزیر اعظم مقرر کریں گے اور پہلی بار سعودی عرب میں بادشاہ برائے نام فرماں روا ہوں گے اور تمام تر اختیارات وزیر اعظم محمد بن سلمان کو حاصل ہوں گے ویسے بھی اس وقت ملک کے سیاہ سفید کے مالک ولی عہد ہی ہیں۔ یہ خبریں بھی ہیں کہ اگلے سال کے وسط میں شاہ سلمان تخت سے دست بردار ہو جائیں گے اور ولی عہد تخت نشیں ہوں گے۔
مغربی دارالحکومتوں میں بیش تر مبصرین کے نزدیک بڑے پیمانے پر شہزادوں اور وزراء کی گرفتاریوں کے اقدام پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے یہودی داماد جارڈ کوشنر کی گہری چھاپ ہے۔ ان گرفتاریوں سے ایک روز پہلے ولی عہد محمد بن سلمان کی ٹرمپ سے ٹیلی فون پر بات ہوئی تھی جو جاپان کے دورے پر تھے۔ یہ بات کسی سے چھپی نہیں ہے کہ ٹرمپ کے بر سر اقتدار آنے کے فوراً بعد ان کے اور سعودی ولی عہد کے درمیان بڑے گہرے تعلقات استوار ہوگئے تھے۔ ان تعلقات کی بنیاد ایران کے خلاف ٹرمپ اور ولی عہد کی معرکہ آرائی کی حکمت عملی ہے۔ گزشتہ جون میں دہشت گردی کی معاونت کا الزام لگا کر ولی عہد نے قطر کی ناکہ بندی کی جو کارروائی کی تھی ٹرمپ نے اس کی بھرپور حمایت کی تھی، اس دوران ٹرمپ کے داماد کوشنر نے جو صدر ٹرمپ اور اسرائیل کے درمیان اہم رابطہ کار ہیں، ایران کے خلاف امریکا اور سعودی عرب کی حکمت عملی میں اسرائیل کی نیابت کی ہے۔
یہ امر بے حد اہم ہے کہ سعودی شہزادوں اور وزراء کی گرفتاریوں سے پہلے، جارڈ کوشنر چار روز تک ریاض میں مقیم تھے۔ ان کے ساتھ امریکا کی قومی سلامتی کی نائب مشیر ڈینا پاول اور مشرق وسطیٰ میں امریکا کے سفیر جیسن گرین بلاٹ بھی ریاض میں تھے۔ سعودی شہزادوں کی گرفتاریوں سے قبل ٹرمپ کے ان مشیروں کی ریاض میں موجودگی کی بنیاد پر یہ کہا جا رہاہے کہ بلا شبہ ان گرفتاریوں کے فیصلہ کے سلسلے میں ان کا مشورہ شامل حال رہا ہوگا۔ یہ امکان بھی رد نہیں کیا جا سکتا ریاض میں ٹرمپ کے داماد اور اعلیٰ امریکی مشیروں کے قیام کے دوران مشر ق وسطیٰ میں سیاسی اور فوجی حکمت عملی کے بارے میں اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری کے استعفے کے بارے میں بھی فیصلہ ریاض میں امریکی مشیروں کی موجودگی میں کیا گیا، اب تک کسی نے یہ نہیں سنا کہ کسی ملک کے وزیر اعظم نے دوسرے ملک جا کر اپنے استعفے کا اعلان کیا ہو۔ بلا شبہ سعد حریری پر امریکا اور سعودی عرب کا شدید دباؤ تھا جس کا مقصد لبنان میں حزب اللہ اور ایران کے اثر کا تختہ الٹنا ہے۔ ان کوششوں کو اسرائیل کی بھی آشیر باد حاصل ہے جو لبنان پر اپنے عزائم کی خاطر ایران کے اثر رسوخ اور حزب اللہ کے قلع قمع کی تدابیر کا متلاشی ہے۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف خانہ جنگی میں ناکامی کے بعد اب امریکا اور اسرائیل، لبنان کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں اور حزب اللہ پر وار کر کے ایران کا اثر توڑنا چاہتے ہیں۔
سیاسی مبصرین اس موقعے پر سی آئی اے کی طرف سے اچانک ان چار لاکھ ستر ہزار فائلوں کی اشاعت کو بے حد اہمیت دیتے ہیں جو چھ سال قبل ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد امریکی سی سیل کے کمانڈوز نے اپنی تحویل میں لی تھیں۔ ان فائلوں میں یہ فائل بھی شامل ہے جس میں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ ایران اور اسامہ بن لادن کے درمیان قریبی گٹھ جوڑ تھا اور ایران، امریکا کے خلاف کارروائیوں کے لیے القاعدہ کو استعمال کرنا چاہتا تھا۔ سی آئی اے، اس بنیاد پر اسی طرح ایران کی موجودہ حکومت کا تختہ الٹنے کا جواز پیش کرنا چاہتی ہے جس طرح صدام حسین کے خلاف وسیع پیمانے پر ہلاکتوں کے ہتھیار کا شور مچا کر عراق کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکائی گئی تھی۔
عین اس روز جب سعودی عرب میں اہم شخصیات کی گرفتاریاں عمل میں آئیں تھیں یمن کے حوثیوں کی طرف سے مزائل کے ناکام حملہ نے حالات کو بے حد مخدوش بنا دیا ہے۔ سعودی عرب نے اس ناکام حملہ کا الزام براہ راست ایران پر عاید کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ یہ سعودی عرب کے خلاف جنگ کا عمل ہے جس کے بعد ایران کے خلاف بڑے پیمانہ پر کارروائی کا شدید خطرہ ہے۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کسی مخالفت اور رکاوٹ کے بغیر جس تیزی سے شہزادوں اور وزیروں کو گرفتار کیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ انہیں اس کارروئی میں امریکا اور کوشنر کے توسط سے اسرائیل کی بھی حمایت حاصل رہی ہے اور یہ سہہ فریقی گٹھ جوڑ مشرق وسطیٰ کے مستقبل کے سلسلہ میں بے حد اہم رول ادا کرے گا۔