اسپیڈ بریکرز کے خلاف قانون سازی 

460

پچھلے دنوں خبر آئی تھی کہ صوبائی حکومت نے غیر قانونی اسپیڈ بریکرز کی روک تھام اور ان کے خاتمے کے لیے قانون سازی کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ محض ایک خبر تھی یا پھر حکومت اس سنجیدہ مسئلے کی روک تھام اور عام شہریوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے والے اسپیڈ بریکرز کا خاتمہ واقعی یقینی بنانا چاہتی ہے گو اس حوالے سے کچھ کہنا فی الحال اس لیے مشکل ہے کہ متذکرہ خبر جس کی باز گشت صوبائی اسمبلی میں سنی گئی تھی اور جس کے متعلق کسی معزز رکن نے حکومت کی توجہ مبذول کرائی تھی کے نتیجے میں قانون سازی کی یہ بیل تواب تک منڈھے نہیں چڑھ سکی ہے البتہ امید کا دامن چوں کہ کبھی بھی نہیں چھوڑنا چاہیے اس لیے پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ کے مصداق شاید کبھی تو حکومت اس اہم اور سنجیدہ مسئلے کی جانب توجہ دینے پر مجبور ہو ہی جائے گی۔
حکومت اگرغیر قانونی اسپیڈ بریکرز کے خاتمے میں واقعی سنجیدہ ہے تو اسے اس نیک کام کاآغاز اس ضمن میں قانون سازی کا قدم اٹھانے ہی سے کرنا ہوگا۔ اسپیڈ بریکرز کے خاتمے کے لیے قانون سازی کی خبر ذرائع ابلاغ میں رپورٹ ہونے کے بعدکے عرصے میں محکمہ قانون اور صوبائی حکومت کے کرتا دھرتاؤں نے اس اہم ترین عوامی مسئلے پر اب تک کیا پیش رفت کی ہے اور ریاستی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے ہمارے اردگرد چھوٹی بڑی شاہراہوں اور دوردراز کے دیہات کے چھوٹے بڑے اور تنگ وتاریک کچے پکے راستوں پر بنائے جانے والے کچے پکے غیر قانونی اسپیڈ بریکرز سے لے کر شہروں کے گلی کوچوں اور بسا اوقات بڑی اور مصروف شاہراہوں پر عوام اور خواص کی جانب سے ٹریفک کی روانی روکنے کے لیے بنائے جانے والے اسپیڈ بریکرز کے خاتمے اور ایسے کسی ایکشن کے ذریعے حکومتی رٹ کی بحالی کے لیے صوبائی حکومت کے متعلقہ اداروں نے کیا اقدامات اٹھائے ہیں گو کہ اس حوالے سے اب تک راوی چین ہی چین لکھتا ہے لیکن اس سلسلے میں ایک امید افزا خبر جس میں صوبے کے سب سے بڑے انتظامی افسر چیف سیکرٹری نے محکمہ مواصلات وتعمیرات کے اعلیٰ حکام کو ہدایات جاری کی ہیں کہ صوبے میں جا بجا پھیلے ہوئے غیر قانونی اسپیڈ بریکرز کے خلاف فوری ایکشن لیتے ہوئے نہ صرف ان کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جائیں بلکہ مذکورہ ہدایات نامے میں متعلقہ اہلکاروں کو اس حوالے سے پیش رفت پرمبنی ہفتہ وار کارکردگی پر مبنی رپورٹ سے بھی چیف سیکرٹری اور ان کی نگرانی میں قائم پرفارمنس مانیٹرنگ اینڈ ریفارمز یونٹ کوبھی آگاہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ مذکورہ ہدایت نامے میں چیف سیکرٹری نے محکمہ مواصلات کو 4نومبرتک پہلے مرحلے میں بڑے شہروں اور شاہراہوں میں قائم غیر قانونی اسپیڈ بریکرز کو ختم کرکے اس کی ابتدائی رپورٹ چیف سیکرٹری کوپیش کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ اس خبر کی اشاعت کے اگلے دن ہم اپنے گھر سے اس احساس کے ساتھ نکلے کہ شاید آج راستے میں ان درجنوں چھوٹے بڑے اسپیڈ بریکروں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گاجن سے آتے جاتے روز ہمیں واسطہ پڑتا ہے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد کے مصداق گھر سے چند قدم آگے جا کر جلد ہی ہماری یہ خوش فہمی اس وقت ہرن ہوگئی جب ہم نے پرانے درجنوں اسپیڈ بریکرز کو تو جوں کاتوں برتاالٹا ان میں ایک دو نئے بریکروں کا اضافہ بھی ہوچکاتھا ۔سوال یہ ہے کہ اگر بجلی اور گیس کی چوری قابل تعزیر جرم ہے۔ اگر اختیارات سے تجاوز اور حکومتی وسائل مثلاً سڑکوں،بجلی اور ٹیلی فون کے کھمبوں سمیت دیگر سرکاری املاک اور وسائل کونقصان پہنچانا جرم ہے تو سڑکیں اور شاہراہیں جو قومی ملکیت ہیں اور اسلام میں جن کی کشادگی اور مسافروں کے لیے ان کو صاف اور آرام دہ بنانے کا واضح حکم دیا گیا ہے اور جن پر آزادانہ نقل وحرکت ہر شہری کا بنیادی حق ہے توجو کوئی یہ حق کسی بھی وجہ سے سلب کرنا چاہتا ہے تو کیا اس کی روک تھام اور سدباب نیز شہریوں کو آزادانہ نقل وحرکت کے حق سے محروم کرنے والوں کوگرفت میں لانا حکومت ا ور متعلقہ اداروں کا فرض نہیں ہے۔
آئین و قانون کی بالادستی اور شہری حقوق کی آزادی کے تمام تردعوؤں کے باوجود بد قسمتی سے ہم ایک ایسے جنگل نما معاشرے میں رہتے ہیں جہاں جب جس کا دل چاہتا ہے بیلچہ اور کدال اٹھا کراپنے گھر کے سامنے سڑک پر پہاڑ جتنا اسپیڈ بریکر بنا ڈالتا ہے ۔ایسے لوگ خود تو یقیناًانتہائی بے حس ہوتے ہیں لیکن افسوس اور مایوسی اس وقت ہوتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے اور قانون کو ہاتھ میں لینے والے ان معاشرتی دہشت گردوں کو نہ صرف یہ کہ کوئی پوچھتا نہیں ہے بلکہ ہر چالیس پچاس قدم کے فاصلے پر بنائے جانے والے یہ اسپیڈ بریکر اور ان کی تعداد میں آئے روز ہونے والا اضافہ قانون اور حکومت کے ساتھ ساتھ ہم سب کی اجتماعی بے حسی کا مذاق اڑاتارہتا ہے۔یہاں یہ بتانا خالی از دلچسپی نہیں ہوگا کہ میں خود ایک ایسی بستی میں رہتا ہوں جہاں مختلف اطراف سے آنے جانے کے کم از کم دس بارہ چھوٹے بڑے راستے ہیں جن میں سے ہر راستہ جو آدھے کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر مشتمل ہے میں اوسطاً پندرہ سے بیس چھوٹے بڑے، اونچے نیچے ،ترچھے سیدھے ، موٹے پتلے اسپیڈ بریکرز بنائے گئے ہیں جن میں سے دو راستے ایسے بھی ہیں جن پر 35 اور 38 اسپیڈ بریکرز ہیں۔ اس تناظر میں اسپیڈ بریکروں کے خاتمے کے حکومتی اعلان سے ہم جیسے اسپیڈ بریکروں کے ستائے ہوؤں کا امیدیں باندھناغیر فطری امریقیناًنہیں ہے۔