نا اہلی کی عدالتی توثیق

432

عدالت عظمیٰ نے گزشتہ منگل کو نا اہل قرار دیے گئے میاں نواز شریف کی طرف سے نا اہلی کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواستوں کو مسترد کردیا۔ اس کا امکان تھا کیوں کہ عدالت عظمیٰ کے پانچ فاضل ججوں کے فیصلے پر نظر ثانی کا مطلب یہ ہوتا کہ فیصلہ غلط تھا۔ یعنی عدالت عظمیٰ اپنے ہی خلاف فیصلے دیتی۔ بہرحال نواز شریف ان کے خاندان اور گمشدہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی درخواستوں پر جو تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے اس میں بڑا سخت تبصرہ بھی شامل ہے۔ عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ نواز شریف نے عدالت عظمیٰ، پارلیمان حتیٰ کہ عوام کو بھی بے وقوف بنایا۔ انہوں نے عدالت میں بھی سچ نہیں بولا۔ اس موقع پر امریکا کے سابق صدر سے منسوب یہ مقولہ بھی دوہرایا گیا کہ کوئی شخص چند لوگوں کو کچھ عرصے کے لیے بے وقوف بناسکتا ہے لیکن سب کو ہمیشہ کے لیے بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ مجھے کیوں نکالا کا نعرہ لگانے والے نواز شریف اور ان کے حواری تبصرے کی سنگینی پر غور کریں کہ نواز شریف عدالت سمیت سب کو بے وقوف بنا رہے تھے۔ عدالت عظمیٰ کے مطابق نظر ثانی کی درخواستوں میں فیصلے میں کسی غلطی کی نشان دہی نہیں کی گئی۔ فیصلہ غیر متنازع ہے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فیصلے سے نواز شریف کو حیران کردیا گیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نگران جج کا تقرر نئی بات نہیں، ٹرائل میں بے پروائی کو روکنے کے لیے ہے۔ فیصلے میں بڑی اہم بات یہ کی گئی ہے کہ 6اداروں میں اعلیٰ شخصیت کا اثر ، رسوخ ہے اور نہیں چاہیں گے کہ معاملہ کسی کے حواریوں کے پاس جائے۔ یہ بھی نظر ثانی کی درخواستوں کو مسترد کرنے کی ایک وجہ ہے۔ یعنی نظر ثانی کے فیصلے کے بعد مقدمہ مذکورہ 6اداروں میں کسی کے پاس جاسکتاتھا اور یہ کوئی راز نہیں کہ ہر شاخ پر حواری بیٹھے ہیں۔ وفاق اور پنجاب میں اب بھی حکومت مسلم لیگ ن کی ہے جس کے صدر الصدور میاں نوازشریف ہیں۔ اسی لیے سرکاری طورپر ملزموں کو شاہی پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ جب عدالت میں آمد ہوتی ہے تو 50,40 سرکاری گاڑیاں آگے پیچھے ہوتی ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ اگر رعایت دی گئی تو یہ تباہی ہوگی۔ نا اہلی سے متعلق حقائق غیر متنازع ہیں، نواز شریف نے جان بوجھ کر اثاثے چھپائے، جھوٹا بیان حلفی جمع کرایا۔ اس پر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ نوازشر یف کو ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا جواب مل گیا۔ عمران خان کو خوش ہونا بھی چاہیے کیوں کہ ان کی نظر تخت اسلام آباد پر ہے اور ان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ن لیگ ہے۔ میاں نوازشریف کو نا اہل قرار دیے جانے کے بعد مسلم لیگ ن بھی ضعف کا شکار ہے اور لیگیوں نے ادھر ادھر دیکھنا شروع کردیا ہے۔ نواز شریف کے حواری خواہ کتنا ہی اصرار کریں کہ پارٹی یا شریف خاندان میں کوئی پھوٹ نہیں ہے لیکن گڑبڑ تو ہے۔ مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی آخری نتیجے کا انتظار کررہے ہیں اور یہ مسلم لیگ کی تاریخ ہے کہ اس کے ارکان کبھی گرتی ہوئی دیوار کے نیچے نہیں بیٹھتے۔ یہی وجہ ہے کہ جس مسلم لیگ نے قائد اعظم کی قیادت میں تشکیل پاکستان کا معرکہ سر کیا وہ بہت جلد بازار کا مال بن گئی اور جس نے چاہا اسے گھر ڈال لیا۔ حتیٰ کہ پاکستان کے پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان نے بھی مسلم لیگ پر چھاپا مارا اور لیگیوں کا کنونشن بلا کر کنونشن مسلم لیگ بنا لی۔ اس کے مقابلے میں پیر پگاڑا نے فنکشنل مسلم لیگ بنا ڈالی۔ اب تک کے آخری آمر جنرل پرویز مشرف نے قائد اعظم مسلم لیگ کے نام سے ایک سرکاری لیگ بنا لی۔ ان کے علاوہ بھی کئی مسلم لیگیں تلاش کی جاسکتی ہیں ۔ بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی کے بھی کئی ٹکڑے ہوئے اور اب تو یہ زرداری کے ہتھے چڑھ چکی ہے۔ کہیں مسلم لیگ ن کا بھی ایسا ہی تیا پانچہ نہ ہو کیوں کہ ن لیگ کا ’’ن‘‘ خود خطرے میں ہے۔ اگلے دن احتساب عدالت نے نواز شریف کی یہ درخواست بھی مسترد کردی کہ ان کے خلاف مختلف نوعیت کے تین ریفرنسز کو یکجا کردیا جائے۔ مسلم لیگ ن کے چند خیر خواہ برابر یہ مشورے دے رہے ہیں کہ نواز شریف عدلیہ اور فوج سے محاذ آرائی نہ کریں ۔ چودھری نثار کے بعد اطلاعات کے مطابق میاں شہبازشریف بھی یہی مشورہ لے کر بڑے بھائی کے پاس لندن گئے تھے لیکن وہاں سے ٹکا سا جواب ملا۔ گزشتہ منگل کو بھی عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد نواز شریف نے وہی شکوہ کیا کہ عدلیہ آمروں کو تحفظ دیتی ہے۔ ان کی صاحبزادی مریم صفدر نے بھی نا انصافی اور انتقام کا رونا روتے ہوئے کہا کہ ’’ دلیل نہ ہونے پر منصف مخالف وکیل بن گئے، قانون اور انصاف شرمندہ ہیں ‘‘۔ مریم کے کہنے کے مطابق جج حضرات ان کے خلاف وکیل بن کر کھڑے ہیں۔ پھر عدالت اور ججوں سے محاذ آرائی کیا ہوتی ہے۔ کیا اس جارحانہ رویے سے کوئی فائدہ ہوگا؟ عدالت عظمیٰ بے وقوف بننے پر تیار نہیں۔