سعودی بحران اور ٹرمپ کی تھپکی

411

مملکت العربیہ السعودیہ میں ایک طرف تو داخلی بحران بڑھ گیا ہے دوسری طرف کئی خارجی محاذ بھی کھول دیے گئے ہیں۔ بدعنوانی کے الزام میں سعودی شہزادوں ، وزراء اور اہم شخصیات کی گرفتاریوں کا سلسلہ جس طرح اچانک شروع ہوا اور مسلسل جاری ہے اس نے کئی شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ بدھ کے دن بھی شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والوں کی گرفتاریاں ہوئی ہیں اور گھروں پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ اقتدار کی جنگ ہو، لیکن جو کچھ بھی ہے عالم اسلام میں سعودی عرب کی خاص اہمیت کی وجہ سے ہر طرف تشویش پائی جاتی ہے۔ اسی کے ساتھ عالم اسلام کے کھلے دشمن امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب میں اہم شخصیات کی گرفتاریوں کا خیر مقدم کیا جس سے معاملہ اور بھی مشکوک ہوگیا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ گرفتاریوں کے حوالے سے انہیں شاہ سلمان اور ان کے بیٹے محمد بن سلمان پر مکمل اعتماد ہے اور وہ جانتے ہیں کہ یہ باپ، بیٹا کیا کررہے ہیں۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ان گرفتار شدگان میں سے کچھ برسوں سے اپنے ملک کو نچوڑ رہے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس میں ٹرمپ اور امریکا کا بھی ہاتھ ہے اور یہ صرف سعودی عرب کا داخلی معاملہ نہیں ہے۔ یہ بھی کوئی راز نہیں کہ ٹرمپ کے یہودی داماد نے بھی ان معاملات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایک خبر یہ بھی تھی کہ ارب پتی سعودی ولید بن طلال اور ٹرمپ میں جائداد کی خرید و فروخت پر تنازع بھی تھا۔ جو کچھ بھی ہولیکن مسلمانوں کے جس معاملے میں امریکا اور اس کے حکمران شریک ہو جائیں کبھی بھی مسلمانوں کے حق میں نہیں ہوسکتا۔ امریکا کے سابق صدر بش سینئر نے کہا تھا کہ ہم نے سرد جنگ جیت لی ہے اب ہمارے سامنے بڑا دشمن اسلام ہے۔ ایک امریکی صدر ہی نے صلیبی جنگ چھڑنے کی بات کی تھی۔ لیپا پوتی کرتے ہوئے اسے زبان پھسل جانا کہہ کر ٹالنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن زبان بے وجہ نہیں پھسلتی بلکہ دل و دما غ میں جو کچھ ہوتا ہے وہ زبان پر بے ارادہ آجاتا ہے۔ عملاً بھی امریکا نے پورے عالم اسلام کے خلاف نئی صلیبی جنگ چھیڑ رکھی ہے اور ستم یہ ہے کہ مسلمان حکمران یہ سمجھ نہیں رہے یا وقتی مفادات کے تحت صلیبیوں کاساتھ دے رہے ہیں۔ افغانستان، عراق اور لیبیا پر بھی تو صلیبی جنگجوؤں نے چڑھائی کی تھی اور پاکستان کے حکمرانوں نے ساتھ دیا تھا۔ عراق و شام کی تقسیم کے ساتھ سعودی عرب کی تقسیم بھی دشمنوں کے منصوبے کا حصہ ہے۔اس کے لیے داخلی بحران پیدا کرنا ضروری ہے۔ خارجی سطح پر اس وقت سعودی عرب یمن سے بھی نبرد آزما ہے اور ایران سے کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ یمن کی ملیشیاؤں کو میزائل کی فراہمی کا الزام ایران پر عاید کیا گیاہے جسے ولی عہد محمد بن سلمان نے براہ راست جارحیت اور جنگ قرار دیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ بورس جانسن نے فوراً سعودی عرب کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا ہے۔ دوسری طرف ایران نے بھی سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے کہ سعودی عرب ایران کو کمزور نہ سمجھے۔ ایران عراق جنگ میں امریکا اور اسرائیل نے دونوں کی پیٹھ ٹھونکی تھی اور اسلحہ فراہم کیا تھا۔ امریکا ایران کو سزا دینا چاہتا ہے اس لیے سعودی عرب کو آگے بڑھا رہا ہے۔ نقصان صرف اور صرف مسلمانوں کا ہو رہا ہے اور شیطان قہقہے لگا رہا ہوگا۔ جانے او آئی سی کہاں سوئی پڑی ہے۔