ایم کیو ایم، پی ایس پی کی قربتیں اسٹبلشمنٹ کی کامیابیوں کا تسلسل

878

کراچی (تجزیہ: محمد انور) ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی نے بدھ کو کراچی و سندھ کے ووٹ کی آئندہ عام انتخابات میں تقسیم کو بچانے کے لیے مشترکہ الائنس کا اعلان کیا ہے۔ یہ اتحاد یا الائنس اگرچہ مہاجروں کے مستقبل کے لیے ایک خوشخبری ہے لیکن دراصل یہ اس سلسلے کی کامیابی جو متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کی شر انگیزی اور ملک دشمنی پر مبنی سیاست کے خاتمے کے لیے شروع کی گئی تھی۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پی ایس پی اور ایم کیو ایم پاکستان کا اتحاد دراصل اسٹیبلشمنٹ کی کامیابی ہے باوجود اس کے کہ سندھ کے شہری علاقوں کے باشندوں کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ایم کیو ایم کے بانی اور ان کے زیر اثر موجود ایم کیو ایم کے خلاف سخت کارروائی کے نتیجے میں کراچی اور حیدرآباد سمیت سندھ کے علاقوں کی سیاست غیر یقینی صورتحال سے دو چار تھی جس کے نتیجے میں سندھ میں “سیاست کا توازن” خراب ہو گیا تھا۔ جس کا اثر پورے ملک پر پڑ رہا تھا جبکہ الطاف کی ایم کیو ایم کے خاتمے سے جو خلاء پیدا ہوا اسے عام انتخابات سے قبل ختم بھی کرنا تھا تاکہ یہ تاثر پیدا نہ ہوسکے کہ انتخابات اور اہم فیصلوں میں شہروں کے لوگوں کا مینڈیٹ نہیں ہے۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اتحاد کی کوشش کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ایک بڑا حصہ تھا جو گزشتہ کم از کم 4 ماہ سے جاری تھی۔ اس اتحاد کے لیے سابق صدر پرویز مشرف کا بھی اہم حصہ ہے جو درپردہ ایم کیو ایم اور پاک سر زمین پارٹی کے نمائندوں سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بات بھی درست ہے کہ مصطفیٰ کمال اس کم عرصے میں ایم کیو ایم پاکستان اور اس کے رہنماء ڈاکٹر فاروق ستار سے اتحاد کرنا نہیں چاہتے تھے لیکن چند روز قبل دبئی میں ایم کیو ایم کے سابق رہنما و کراچی تنظیمی کمیٹی کے سربراہ حماد صدیقی کی گرفتاری نے پی ایس پی اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو ممکنہ سنگین نوعیت کی صورتحال سے بچنے کے لیے اتحاد کرنے کے لیے مجبور کیا اور بدھ کو اس بات کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ سیاسی حلقے یقین سے کہہ رہے ہیں کہ حماد صدیقی کی گرفتاری نہیں ہوتی تو یہ اتحاد اچانک اس طرح ممکن نہیں ہوتا۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس اتحاد کو بنانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کو کیا فائدہ ہوا؟ اس کے جواب میں سیاسی حلقوں کا مؤقف ہے کہ ملک کو مسلسل نقصان پہنچانے والی الطاف حسین کی منظم سیاست کو ختم کرکے اسٹیبلشمنٹ نے دوبارہ ان ہی چہروں کو کامیابی سے اکٹھا کردیا جو اس سیاست کے اہم ستارے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بات کا خدشہ بھی ہے کہ یہ عمل الطاف حسین کے حامیوں کو نئی آکسیجن بھی فراہم کرے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مصطفٰی کمال اور انیس قائم خانی کی حماد صدیقی کی گرفتاری کے بعد تشویش غیر معمولی تھی کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ حماد صدیقی کی گرفتاری کے بعد پی ایس پی کے اہم ترین رہنما کے ساتھ ایم کیو ایم پاکستان کے بعض رہنما بھی گرفتار ہوسکتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر اہم کردار سابق صدر پرویز مشرف نے ادا کیا۔ ان ہی کے مشورے سے یہ الائنس ممکن ہوسکا اور ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی میں دوریاں ختم ہوئیں۔ خیال ہے کہ پرویز مشرف کی کراچی جلد ہی آمد کے بعد مذکورہ دونوں جماعتوں کے ساتھ پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ بھی ایک نئے نام سے ایک نیا اتحاد جو ممکنہ طور پر ” پاکستان قومی الائنس” ہوسکتا ہے وجود میں آجائے گا۔ اس طرح پی ایس پی اور ایم کیو ایم کے اتحاد کو اسٹیبلشمنٹ کے “اسکرپٹڈ” الائنس سے یاد کیا جائے گا۔