کیا کراچی ’را‘ کے حوالے کردیا گیا

529

ٹی وی چینلوں کی بریکنگ نیوز، اخبارات میں شہ سرخیاں، کراچی پریس کلب میں شور شرابا….. ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی کارنامہ ہورہا ہے۔ کہیں سے اس واقعے کو مہاجروں کے لیے نیک شگون قرار دیا گیا اور کسی نے کراچی و حیدر آباد کے مستقل امن سے تشبیہہ دی۔ لیکن اس بھیڑ چال میں اخبارات، ٹی وی اور نام نہاد دانشور اور تجزیہ نگار بھی رُل گئے سب کے خیال میں یہ اچھا ہی ہوگیا کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی ایک پلیٹ فارم سے انتخاب لڑنے اور مشترکہ جدوجہد پر تیار ہوگئے ہیں۔ اس پر بڑی واہ واہ ہورہی ہے، ٹی وی تجزیے ہورہے ہیں کہ اب کراچی و حیدر آباد بڑی نمائندگی کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ سب ہوا کیا ہے؟ کیا کوئی کارنامہ ہوگیا ہے۔ بغلیں کیوں بجائی جارہی ہیں، یہ تو کراچی و حیدر آباد اور سندھ کے شہری علاقوں کے عوام کے ساتھ بہت بڑا فراڈ کیا جارہا ہے، جن لوگوں نے 28 برس ان شہروں کو لوٹا، تباہ کیا، آگ لگائی، بدامنی پھیلائی، انہیں دھو دھلا کر پاک صاف بنا کر پھر اسی شہر کی قیادت دینے کی تیاری کی جارہی ہے اور اسے بڑا کارنامہ کہا جارہا ہے۔ 35 برس سے کراچی کو آگ و خون میں نہلانے والوں کو محض ایک دو پریس کانفرنسوں میں رونے دھونے کی بھونڈی اداکاری کے انعام میں پاک صاف کردیا گیا۔
دنیا میں ایسا تماشا نہیں ہوا کہ ایک شخص خود اعتراف کرے کہ میں نے ’را‘ کے ایجنٹ کے طور پر 28 سال اپنے ملک کے خلاف کارروائیاں کی ہیں اور اسے معاف کردیا جائے بلکہ اسے شہر اور ملک کا اہم لیڈر بنانے کی تیاریاں کی جائیں۔ دنیا بھر میں تو محض الزام لگ جانے پر لوگ استعفے دے دیتے ہیں، بسا اوقات عمر بھر کے لیے سیاست سے کنارا کش ہوجاتے ہیں۔ ورنہ عوام ہی مسترد کردیتے ہیں۔ یہاں تماشا یہ ہے کہ میڈیا اور حکمرانوں کی ملی بھگت سے دہشت گردوں، قاتلوں، بھتا خوروں کو معزز ثابت کیا جاتا ہے اور انہیں معزز تسلیم کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ابھی چند دن قبل اخبارات میں خبر آئی کہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کا مرکزی ملزم حماد صدیقی دبئی میں گرفتار ہوگیا ہے۔ اسے جلد پاکستان لایا جارہا ہے۔ پھر خبر آئی کہ حماد صدیقی نے اہم راز اُگل دیے ہیں۔ بس اب مصطفی کمال، فاروق ستار گروپوں کے اہم رہنما لپیٹ میں آجائیں گے اور پھر خوفزدگی کے عالم میں کئی لوگ دبئی نکل لیے۔ پھر اچانک واپس بھی خاموشی سے آگئے۔ اگر واقعات اور خبروں کی ترتیب دیکھیں تو صاف نظر آرہا ہے کہ ڈراما طے شدہ اور اسکرپٹ کے مطابق جاری ہے۔ بلکہ بعض باتیں تو مصطفی کمال کی پاکستان واپسی اور الطاف حسین سے برأت کے اعلان معافی تلافی والی پریس کانفرنس جیسی ہیں۔ مثال کے طور پر پریس کانفرنس طلب کرنے کے بعد پریس کانفرنس کے اختتام تک بدنظمی رہنا، کون پہلے بات کرے گا اور کیا کرے گا، اس کا کوئی تعین نہ تھا، فاروق ستار ایم کیو ایم پاکستان کے پلیٹ فارم کی بات کررہے تھے اور مصطفی کمال نے اس کی تردید کی یا وضاحت کی کہ ایم کیو ایم کے نام سے کام نہیں کریں گے۔ مصطفی کمال کی پہلی پریس کانفرنس میں بھی انہیں اپنی نئی پارٹی کا نام نہیں پتا تھا۔ اس مرتبہ بھی دونوں رہنماؤں کو نئی پارٹی کا نام نہیں پتا تھا۔ بس جتنا حکم ملا اتنا ہی کام کیا ہے۔ اب اگلا حکم نئی پارٹی کا نام، نئے قائد کا نام اور نئے نعرے دینے والا ہوگا۔
یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ اس پرانی پارٹی کے نئے نام کے ساتھ اس کا قائد کون ہوگا…..؟ کیوں کہ سب کا اتحاد صرف الطاف حسین کے نام پر تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا الطاف حسین کا سحر ٹوٹ گیا ہے۔ مصطفی کمال نے ایک ہی دن قبل کہا تھا کہ ایم کیو ایم کو دفن کرکے دم لیں گے۔ یہ سوال بھی ہے کہ کیا ایم کیو ایم دفن ہوگئی ہے۔ ہمارا خیال تو یہ ہے کہ الطاف حسین کا سحر ٹوٹا ہے نہ ایم کیو ایم دفن ہوئی ہے یہ جو کچھ ہورہا ہے اسے انتظام یا انگریزی میں ارینجمنٹکہا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ دسمبر سے قبل نئی نقشہ گری کی تیاریاں ہیں۔ جو لوگ اور طاقتیں پاکستان میں نیا نقشہ بنانا چاہتے ہیں جو یقیناًمائنس نواز شریف ہوگا۔ اس نقشے میں کراچی کو بھی مرکزی قومی سیاسی پارٹیوں سے بچانا مقصود تھا۔ یہ پارٹیاں ان مقتدر قوتوں کا گیم خراب کردیتی ہیں ہر بات آسانی سے نہیں مانتیں بلکہ بعض باتیں تو مانتی ہی نہیں پھر بلدیہ توڑنے جیسے اقدامات کرنے ہوتے ہیں۔ ابھی تو یہ بھی طے نہیں ہوا کہ ایم کیو ایم کا نام استعمال ہوگا کہ نہیں۔ لیڈر کون ہوگا؟ کیا فاروق ستار مصطفی کمال کو لیڈر تسلیم کرلیں گے، کیا مصطفی کمال فاروق ستار کو لیڈر مان لیں گے۔ قرائن تو یہی ہیں کہ فاروق ستار کو ایک مرتبہ پھر بات مان لینے کا رویہ اختیار کرنا پڑے گا۔ ایم کیو ایم کی تربیت بھی یہی ہے، افسوسناک امر تو یہ ہے کہ جو لوگ اعلان پر خوشیاں منارہے ہیں وہ سانحہ 12مئی، سانحہ بلدیہ ٹاؤن، سانحہ طاہر پلازہ اور 28 سے 30 برس تک مسلسل قتل و غارت کرنے والوں کو پھر سر پر بٹھارہے ہیں۔ کیا سارے جرائم اکیلے الطاف حسین نے کیے تھے، یہ سب الطاف حسین کے دست و بازو تھے ان ہی کے بل پر الطاف الطاف بنا اور آج صرف الطاف کو الگ کرکے جرائم میں استعمال ہونے والوں کو قیادت دی جارہی ہے۔ اس پر یہ سوال تو پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا کراچی کو ’را‘ کے حوالے کردیا گیا ہے۔