رہزنوں کی پیداوار کا غصہ

483

پاکستان کے نا اہل وزیراعظم میاں نواز شریف خاندان کی جانب سے اپنے خلاف تمام ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواست مسترد کردی ہے جس پر میاں صاحب گویا پھٹ ہی پڑے ہیں۔ ان کا انداز نہایت غیر ذمے دارانہ ہے۔ فیصلے سے اختلاف تو کسی کو بھی ہوسکتا ہے اور اس کا ایک طریقہ ہے لیکن میاں نواز شریف تو براہ راست ججوں پر برس پڑے کہ جج بغض سے بھرے بیٹھے ہیں۔ ساتھ ساتھ ان کی پارٹی بھی کچھ نامعلوم ملزمان یا اداروں کے بارے میں استفسار کررہی تھی۔ میاں نواز شریف اور ان کی پارٹی کی گفتگو سے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بیک وقت کئی اداروں کی بات کررہے ہیں۔ یہ سوال بھی اٹھایاگیا کہ سوال رہبری کا نہیں بلکہ منصفی کا ہے۔ بچہ بچہ جانتا ہے کہ قافلے کیوں لٹے۔ کن رہزنوں نے لوٹے، رہزنوں کی بیعت کی، وفاداری کے حلف اٹھانے اور رہزنی کو جواز دینے کے لیے نظریہ ضرورت ایجاد کیے۔ انہوں نے برہمی کے ساتھ کہاکہ فیصلے کے الفاظ عدالتی زبان کے مطابق نہیں، ماتحت عدالتوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی۔ ن لیگ کی جانب سے سوال کیا گیا ہے کہ رہبر پیشیاں بھگت رہے ہیں بتایاجائے کہ رہزن کہاں ہیں۔ اس انداز بیان کا سیاست، اختلاف رائے یا اظہار رائے کے اصولوں کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔میاں نواز شریف اور مسلم لیگ ن نے عدلیہ، ججوں، رہزنوں وغیرہ کا جو ذکر کیا ہے اگر وہ میاں صاحب نے تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ سنبھالتے ہی کیا ہوتا جب ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں تھاکوئی فیصلہ نہیں آیاتھا۔ جب انہیں سب ہرا ہرا نظر آرہاتھا۔ اگر وہ اس وقت رہزنوں کو پکڑتے، عدلیہ پر سخت گرفت کرتے اور خصوصاً قافلہ لٹوانے والے جنرل پرویز مشرف کو گرفت میں لیتے تو بات درست لگتی لیکن اپنے خلاف عدلیہ کے فیصلوں کے بعد عدلیہ اور در پردہ فوج پر غصہ نکالنا کسی طور درست نہیں ۔ ان کی یہ بات یقیناً درست ہے کہ عدالتوں نے رہزنوں کی بیعت کی ۔ وفا داری کے حلف اٹھائے ۔ رہزن کو جواز دینے کے لیے نظریہ ضرورت ایجاد کیا ۔ لیکن میاں صاحب بتا سکتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کا خاتمہ کرنے والا رہزن کون تھا اس رہزن کے گملے کی پنیری اور اس کی آبیاری نے آپ کو تناور درخت بنایا اس وقت تو آپ کو کچھ برا نہیں لگا ۔