پولیس کو کمزور کون کرتا ہے

350

پاکستانی حکمرانوں کا مزاج یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بالکل ہی بے اختیار کردینا چاہتے ہیں اور اس سارے عمل کو وہ جمہوریت کہتے ہیں۔ اس کے چمپئن بھی خود ہی بن جاتے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ ہوں، ملک کے سابق اور موجودہ وزرائے داخلہ ہوں یا کوئی سیاستدان سب کو اپنے اختیارات جمہوریت نظر آتے ہیں یا اپنا اقتدار جمہوریت لگتا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کیوں کسی سے پیچھے رہیں، کہنے لگے کہ جب تک پولیس مضبوط نہیں ہوتی رینجرز سندھ میں رہیں گے، اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ سندھ میں رینجرز ہمیشہ رہیں گے۔ کیوں کہ پولیس کبھی مضبوط نہیں ہوگی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پولیس چیف کے پیچھے ہاتھ پاؤں دھو کر پڑنے والے وزیراعلیٰ پولیس کی مضبوطی کی بات کررہے ہیں، پولیس کی مضبوطی کس کو کہتے ہیں یہ بات وہ شاید جانتے ہی نہیں۔ ابھی ڈیڑھ برس قبل ترک فوج نے امریکی اشارے پر بغاوت کی کوشش کی تھی تو پولیس والے فوجیوں کو پکڑ کر تھانے لے گئے تھے اور ان فوجیوں پر پولیس ہی نے مقدمات قائم کیے تھے۔ اسے کہتے ہیں مضبوط پولیس۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ تو جانتے ہیں کہ جب آئی جی سندھ کو کام نہ کرنے دیا جائے تو پولیس مضبوط نہیں ہوگی۔ اسی طرح جب پولیس کو سیاسی رہنماؤں اور وزرا کی ذاتی ڈیوٹی پر لگا دیا جائے تو پولیس مضبوط نہیں ہوگی۔ اس پولیس کو ایم این اے، ایم پی اے کا غلام بنایا جائے تو یہ کیسے مضبوط ہوگی۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ پولیس ایک نسل کا نام سے جس کے اندر حرام اور ناجائز مال کمانے کی خصوصیت پیدا ہوچکی ہے اور دوسری طرف وزیروں افسروں کے حکم پر ہر ناجائز کام کر ڈالنے کو راضی ہیں۔ جب منہ کو خون لگ جائے تو پھر کسی وزیر یا وی آئی پی کی ضرورت نہیں ہوتی پھر گلی محلے میں موٹر سائیکل والوں کو روک کر لوٹا جاتا ہے۔ لیکن رینجرز کیا کررہے ہیں۔ جتنی غلط معلومات پولیس والوں کے پاس ہوتی ہیں وہ ساری کی ساری پولیس والے رینجرز کو دے دیتے ہیں جس کے نتیجے میں رینجرز کسی کو بھی اُٹھا کر لے جاتے ہیں۔ تفتیش کے بعد اس کے خلاف کچھ نہ ملنے پر بدنامی سے بچنے کے لیے وہ انہیں پولیس کے حوالے کردیتے ہیں اور پولیس….. کبھی راؤ انوار کے ذریعے تو کبھی کسی اور ذریعے سے جعلی مقابلہ کرادیتی ہے۔ ہم وزیر اعلیٰ سندھ سے یہی گزارش کرسکتے ہیں کہ پہلے تو راؤ انوار صاحب کے جعلی مقابلے بند کروائیں پھر پولیس کا سیاسی استعمال خود بند کریں، پروٹوکول کے نام پر پولیس کا استعمال بند کردیں اور کم از کم آئی جی سندھ کو تو کام کرنے دیں پھر دیکھیں رینجرز کی ضرورت رہتی ہے یا نہیں۔ جب پولیس کا سپاہی ہاتھ اٹھا کر وزیراعلیٰ کی گاڑی کو سگنل پر روک دے۔
ہوسکتا ہے وزیراعلیٰ سندھ نے رینجرز سے تنگ آئے ہوئے اپنے ارکان سندھ اسمبلی اور بعض وزرا کی شکایت پر یہ بیان دے دیا ہو لیکن اگر وہ ذرا غور کریں اور چند سال قبل رینجرز کو اختیارات دینے کے معاملے کے وقت کا جائزہ لیں تو یہی تاثر تھا کہ سارا آپریشن ایم کیو ایم کے خلاف ہوگا۔ اس وقت بھی ہم نے توجہ دلائی تھی کہ پولیس، رینجرز یا فوج کو ماورائے آئین اختیارات دینے والے خود ایک روز پچھتائیں گے اور آج رینجرز کے ہاتھ کبھی شرجیل میمن تک پہنچتے ہیں تو کبھی آصف زرداری کے قریبی ساتھی کو گرفتار کرتے ہیں اور اب بھی خدشات ہیں کہ رینجرز کو اندرون سندھ کارروائی کی اجازت دی تو ان کے ہاتھ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے مزید لوگوں تک پہنچیں گے۔ ان ایوانوں میں یہ خدشات بھی ہیں کہ رینجرز انتخابات کے اعلان اور حکومت کے خاتمے کے منتظر ہیں جوں ہی انتخابات کا اعلان ہوگا بہت سے لوگوں کے سر سے حکومتی سایہ ہٹ جائے گا جس کے بعد ان پر ہاتھ ڈالنا آسان ہوگا۔ سندھ حکومت کے بعض حلقے خصوصاً محکمہ داخلہ میں موجود اعلیٰ سطح تک مستقبل کی پیش بندی کی جارہی ہے اور عین ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں رینجرز کے اختیارات میں اگلی حکومت کے آنے تک توسیع نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا جائے۔ نیب کے خلاف قرار داد اور اس کے اختیارات محدود کرنے کے اقدامات بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ لیکن جناب وزیراعلیٰ جب تک کوئی نہ کوئی ادارہ قانون نافذ نہیں کرے گا اس وقت تک نظام چلے گا نہیں اگر نظام ٹھیک چلانا ہے تو پولیس کو نہ صرف اختیارات دیں بلکہ اس میں رکاوٹ بھی نہ ڈالیں۔ ورنہ رینجرز کو اختیارات دینے پڑیں گے، ویسے رینجرز اور فوج حکومت کی جانب سے اختیارات دینے کی محتاج نہیں ہیں، بس معمولی سی قانونی رکاوٹیں ہیں جن کی پہلے بھی پروا نہیں کی گئی تو جب ایسا وقت آئے گا یہ خود اختیار استعمال کرلیں گے۔ قانون کا استعمال بہرحال ہوگا۔ پولیس کرے، رینجرز کرے یا فوج۔ بہتر یہی ہے کہ حکومت خود قانون کو راستہ دے دے۔