8 نومبر کو ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کے درمیان جو کچھ ہوا وہ ایک ڈرامے سے کم نہیں تھا لیکن دوسرے دن محض 24 گھنٹے بعد ایم کیو ایم کے سربراہ فاروق ستار نے جو کچھ کیا وہ کیا تھا ؟ اپنے سابقہ قائد و بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے نقش پا پر چلنے کے مطابق نہیں تو پھر کیا کیا تھا ؟۔ کیا یہ سب جو کچھ 8 نومبر کو کیا گیا اس کی خلوص کے ساتھ اصلاح کرنے کی کوشش ہی تھا ؟
ڈاکٹر فاروق ستار ایم بی ایس ڈاکٹر ہیں اس لحاظ سے ایم کیو ایم کی بیمار سیاست کا علاج کرنے کا ان کے پاس خاصہ تجربہ ہے۔ 32 سال تک اپنے سابقہ قائد کی جانب سے دیے گئے سیاست کے غلط ” انجکشن ” کے اثرات وہ اور ان کے دیگر ڈاکٹر ساتھی مل کر ختم کرتے رہے ہیں۔ مگر گزشتہ سال 22 اگست کے بعد صورتحال تبدیل ہوچکی تھی خیال ہے کہ الطاف حسین کی بیمار سیاست کینسر زدہ ہونے کے بعد اپنی موت آپ مرگئی یہ اور بات ہے کہ اس سیاست کی تدفین ملک کی عسکری قوت امن پسند لوگوں اور ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار اور عامر خان کے تعاون سے کرنے میں تاحال مصروف ہیں۔ لوگوں کو ایم کیو ایم پاکستان سے ماضی کے مقابلے میں اب مثبت سیاست کی توقع ہے۔شاید یہی وجہ تھی کہ پی ایس پی کے ساتھ مل بیٹھنے پر شدید ردعمل سامنے آیا تھا جس پر فاروق ستار نے وضاحت کے ساتھ اپنا ایک گھنٹے پہلے کا استعفیٰ واپس لے لیا۔
عام تاثر یہ ہے کہ اگر الطاف حسین کی سیاسی بیماری کا درست اور وقت پر “علاج “کردیا جاتا تو سب کچھ ٹھیک ہوجاتا ، نا 22 اگست 2016 کو کراچی پریس کلب پر ملک دشمنی کے نعرے گونجتے اور نہ ہی 8 اور 9 نومبر 2017 کو ” ڈرامائی سیاست ” کا اظہار ہوتا۔
لیکن جب ملک میں بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں کی دیکھا دیکھی مفادات کی” اسکرپٹیڈ سیاست ” فروغ پانے لگے تو ایم کیو ایم اور پی ایس پی جیسی جماعتوں کا اسٹیبلشمنٹ کی خواہشات کے مطابق چلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتا ہے۔ میری نظر میں اسٹبلشمنٹ کا کردار ملک کے خلاف نہیں بلکہ ہمیشہ ہی ملک کے مفاد میں رہا ہے یہ کردار اس وقت سامنے آتا ہے جب سیاسی جماعتوں کے لیڈر ملک اور شہروں کے مفادات کو پس پشت ڈال کر اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل میں مصروف و مشغول ہوجاتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک کی صف ِاوّل کی سیاسی پارٹیوں یں ملک کے بجائے اپنے مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے ایسے میں اسٹبلشمنٹ ایسی جماعتوں کو لگام ڈالنے کے لیے متحرک ہوجاتی ہے۔ جب یہ فعال ہوتی ہے تو سیاسدانوں کے اذہان مفادات پر ضرب لگنے اور مستقبل کی فکر میں آزادانہ کام نہیں کرتے بلکہ وہ کشمکش کا شکار ہوجاتے ہیں اور پھر نتائج اسی طرح نکلتے ہیں جو ایم کیو ایم اور پاک سر زمین پارٹی کی جاری سیاست کے نکل رہے ہیں چونکہ یہ پارٹیاں صرف اسکرپٹ کے مطابق بھی نہیں چلنا چاہتی بلکہ اپنے مفادات کے مطابق بھی کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں اس لیے امکان ہے کہ ملک کی سیاست اور سیاسی جماعتوں کا طرز عمل بھی ایسا ہی رہے گا اور سیاست میں ڈراما بازیاں چلتی رہیں گی۔
نواز شریف کی مسلم لیگ تمام چالاکیوں اور سیاسی چالبازیوں کے باوجود اپنے دور کے آخری ایام بھی مکمل کرنے کی کوشش میں سرگرم ہے لیکن اس کوشش میں کامیاب ہونا اس لیے مشکل ہے کہ مسلم لیگ کے رہنما جھوٹ اور غلط بیانی کرنے پر ملک کی اعلی عدالت کی طرف سے نااہل قرار پاچکے ہیں۔لیکن نواز شریف کی یہ کوشش ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنی پارٹی کی قیادت ہی نہیں بلکہ ملک کی باگ دوڑ بھی ان ہی کے ہاتھوں میں رہے جو عدالت کے فیصلے کے بعد ناممکن ہے۔ چونکہ سیاست دانوں کو اپنے مفادات زیادہ عزیز ہوتے ہیں اس لیے وہ کسی ایسے عمل میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے جس میں ان کی ذات کو کوئی فائدہ نہیں ہو۔
کراچی یا مہاجروں کی سیاست میں بھی مفادات غالب رہے جس کے نتیجے میں سیاست اور حقوق کے نام پر تماشے اور خوں ریزی ہوتی رہی 32 سال میں نوجوان حق ملنے کے جھانسے میں آکر حقوق تو حاصل نہیں کرسکے مگر اپنی جانوں کا تحفظ بھی نہیں کرسکے۔طاقت کے فلسفے کے نام پر کی جانے والی سیاست میں جو بھی ملوث رہا وہ تمام کے تمام ان تمام جرائم میں بھی ملوث ہیں جو 32 سال میں حقوق کی جدوجہد کے نام پر ہوتے رہے۔ اس سیاست کی وجہ سے 2012 میں کراچی کی بلدیہ گارمنٹ فیکٹری میں آتشزدگی کا وہ واقعہ رونما ہوا جو دنیا کا واحد ہولناک واقعہ ہے جس میں ایک ہی چھت کے نیچے 259 افراد زندہ جھلس کر جاں بحق ہوگئے۔ اس واقعہ سمیت متعدد قتل و غارت اور دہشت گردی کے واقعات میں ملوث متعدد افراد نے پاک سر زمین پارٹی بنالی اور مافیا سیاست کے خلاف سیاست شروع کردی اس لیے کہ اب انہیں خدشہ ہے کہ ان کے گھناونے جرم کا حساب دینے کا وقت آچکا ہے۔ایسے میں وطن عزیز میں سیاست ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس کے ذریعے وہ کم ازکم دنیا میں اپنے کیے کی سزا سے بچ سکیں گے اور ان کا تحفظ بھی ہوسکے گا۔
مفادات کی سیاست سابق صدر پرویز مشرف کو بھی مہاجر سیاست کی چھتری تھامنے کی جانب راغب کررہی ہے ان کی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ نے ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کے ایک ہونے پر خوشی کا کھل کر اظہار بھی کیا اور سب سے پہلے اس خوشی میں مٹھائی تقسیم کی۔اس بات سے یقین ہوگیا کہ پی ایس پی اور ایم کیو ایم پاکستان کے اتحاد کے پس پشت پرویز مشرف کا کردار بھی ہے۔ یہ پرویز مشرف وہی ہیں جن کے دور صدارت میں وکلا کی ازادی عدلیہ کی تحریک کے دوران سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی کراچی آمد کے موقع پر 12 مئی 2007 کو شہر کراچی میں طاقت کا اظہار کیا گیا یہ اظہار پرویز مشرف کی اس وارننگ کے بعد کیا گیا جس میں انہوں وکلا تحریک کو کھلی دھمکی دی تھی۔ پرویز مشرف کی وارننگ کے بعد کراچی میں آتش و آہن کا وہ کھیل دیکھنے کو ملا جس میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ جو جماعتیں اور سیاسی کارکن اس خونی کارروائی میں ملوث تھیںآج مبینہ طور پر وہ پرویز مشرف کے ساتھ چلنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔۔ مگر کیوں۔۔اسی لیے کہ پرویز مشرف ان کے ان مقدمات کے سامنے ڈھال بن جائیں گے اور انہیں بچالیں گے۔ سوال یہ ہے کہ ہم کب تک ایسے سیاسی عناصر کے اشاروں پر چلتے رہیں گے ؟ اور کب تک ملک میں بااثر کرپٹ و کریمنل عناصر کی سیاست کا غلبہ رہے گا؟