’’موجودہ تعلیمی نظام اور کلچر و ثقافت پر مکالمے و جرگے کی ضرورت‘‘

1181

انسانی زندگی، روز اول سے تعلیم و ہنر کی محتاج رہی ہیں اور لمحہ موجود میں مادی ترقی کے باعث تعلیم کی ہیت و انتظام تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔ تعلیم، کلچر اور ادب و ثقافت سے الگ ہو کر رہ گیا ہے۔ تعلیمی ماحول، نصاب اور اساتذہ، ایسے ہوں جو نسل نو کی عملی زندگی کی تیاری میں راہنمائی و معاونت کرسکیں۔ آج تعلیمی نظام سے اخلاق و آداب زندگی اور مقصد زندگی کے ساتھ دنیا داری اور Skills و ہنر کی فراہمی کا تعین، واضح تر نظر آنا چاہیے۔
موجودہ تعلیمی نظام و طریق کار، اخلاقیات و مادیت، دونوں حوالوں سے ہمیں ترقی و سربلندی کی راہ پر نہیں لے جارہے ہیں۔ بچوں کے بچپن کے فطری آداب و کھیل کود سے دوری اور ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کے باعث اخلاقیات بگڑ رہی ہیں اور اسکولنگ و خاندان اس پر قابو نہیں پا رہے بلکہ بچوں کے مزاج، فطری و نفسیاتی مسائل اور حالات و وسائل کی تبدیلی کے باعث، ہم معاشرتی و تہذیبی طور پر ایک نہ ختم ہونے والی کشمکش میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ بچپن سے گزر کر نوجوانی میں قدم رکھنے والے طلبہ و طالبات کے نفسیاتی و اخلاقی مسائل کے ساتھ ضروریات و مسائل بالکل تبدیل ہوجاتے ہیں جس کا ادراک ہمارا خاندان، ماں باپ اور معاشرہ نہیں کر پاتے اور یوں تہ در تہ مسائل کے انبار لگ جاتے ہیں۔
ہم بحیثیت مجموعی پوری زندگی میں سماجی و سیاسی انتشار اور کمزور پالیسیوں کے باعث بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ دین و دنیا کی تفریق اور نئی دنیا میں ہونے کے باوجود، ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ نہ ہونا بھی ایک المیہ ہے۔
ہمیں اجتماعی دانش کے ساتھ ایک تعلیمی نظام بنانے کی ضرورت ہے جو ہماری معاشرتی و ثقافتی اقدار اور دور جدید کی کاروباری ضروریات و طرز زندگی سے ہم آہنگ ہوں۔ اس میں والدین کا کردار اپنے بچوں اور معاشرے کے تمام طلبہ و طالبات کے لیے بنیادی ہو۔ اگر والد معاشی سرگرمیوں میں گھر اور تعلیمی راہنمائی سے دور ہو تو ایک سماجی معاہدے ؍ قرار داد کے ذریعے والدہ کے کردار کی از سر نو تشریح و تعین ہوں اور وہ ماں کے ساتھ استانی بنے۔
والدین، خاص کر والدہ فطری طور پر استاد ہے مگر ہمارے رسوم و رواج نے اسے خاصے بوجھ تلے، زندگی گزارنے پر مجبور کیا ہے۔ تعلیم و تزکیہ اور صفائی و سلیقہ کے ساتھ طب و خیال داری، عورت کی گھٹی میں فطرت نے سمودی ہے جبکہ نئی دنیا میں ٹیکنالوجی کے استعمال میں اضافے اور طرز زندگی کے تبدیل ہونے سے بچے ذہین و فطین ہوتے جا رہے ہیں اور خواتین و ماؤں کے لیے معاشرتی رسوم میں مواقع نہ ہونے کے باعث وہ دونوں اْمور یعنی ٹیکنالوجی و بدلتے ہوئے زندگی کے تقاضوں سے ناآشنا ہیں۔ اس لیے ماں اور عورت کی افادیت اور تعلیم و ہنر کے فروغ میں اس کا بہترین حصے کے تعین کے لیے ہمیں سماجی و معاشرتی طور پر نئے الفاظ و کردار کے ساتھ ماں، بیوی، بہن اور بیٹی کا بطور اْستاد و مْرّبی ’’Mentor‘‘ تشریح کرنا ہوگی۔
ہم گھر، محلہ و گاؤں، کمیونٹی سینٹر، مسجد و مدرسہ اور بیٹھک کی بنیاد پر ایک ایسے نظام کی تشکیل، اپنے ضروریات کے لیے طے شدہ معیار، آفاقی و فطری اصولوں کے مطابق کرنا چاہتے ہیں جس میں تہذیب و اقدار مقامی ہو (ہمارے مقامی اقدار آفاقی و فطری ہیں) جبکہ زبان بین الاقوامی انگریزی ہوں (عالمی طور پر انگریزی رابطے کی زبان ہے جبکہ انگریزی تہذیب، ہمارے عقیدہ و کلچر سے متصادم ہیں) عربی و چینی زبانیں ترجیح ہوں جبکہ اْردْو اور مادری زبانیں (پشتو، پنجابی، سرائیکی، براہوی، بلوچی، فارسی، ہزاردی وغیرہ) ہماری ثقافت و کلچر اور رسم و رواج کی آئینہ دار ہیں اس لیے مادری زبان اور کلچر و اقدار کے متعلق ایک واضح پالیسی و وژن طے ہو اور پری پرائمری میں پوری تعلیم مادری زبان میں ہو۔ نئی زبان سیکھنے کا گْر و Skill جدید طرز تعلیم پر مبنی ہوں نہ کہ ہمارے ہاں انگریزی زبان کے نام پر نہ ختم ہونے والی مشقت پر۔
ٹیکنالوجی کے روز افزوں استعمال اور مادی ترقی میں پیش رفت ایک واضح منزل ہو تب ہم بھوک و غربت اور جہالت و غلط رسوم کو ختم کرنے کی طرف پہلا قدم اْٹھا سکتے ہیں اور اپنے ماؤں اور خواتین کو Skill و اختیار کی قوت سے نواز کر نسل نو کی تعلیم و تہذیب کا انتظام کرسکتے ہیں۔
موجودہ سرکاری تعلیمی نظام و ادارے اور نجی اسکولز و مدارس، ہماری معاشرتی ضروریات اور مادی ترقی کے اہداف کو پورا نہیں کرپاتے اور نہ ہی تہذیب و عقیدہ اور اخلاق و آداب کی پاسداری کراتے ہیں۔ اس لیے ایک سماجی تبدیلی کے طور پر، ہم سب کو مکالمہ (Dialogue)کا راستہ اختیار کرکے تعلیمی کانفرنسوں و جرگوں کے ذریعے ایک نئے تعلیمی نظام (New Educational System)کی داغ بیل ڈال لینی چاہیے تاکہ ہم مناسب انداز میں پیش رفت کے قابل ہوسکیں۔
ماں اور خواتین کو Empower کرنے کے ساتھ ہمیں معاشرتی و اجتماعی طور پر اپنے رویے و مزاج اور ضروریات و رسوم میں تبدیلی کرکے مقامی وسائل سے نسل نو کے لیے ایسے اداروں Learning Space Centers اپنی موجود عمارتوں اور سوسائٹی کے مختلف خانوں میں تشکیل دینے ہوں گے جو غیروں کی امداد و ترجیحات سے ہمیں بے نیاز کرلیں۔ مادی طور پر محتاج قومیں و سوسائٹی ہمیشہ دینے والوں کی ترجیحات قبول کرکے کام چلاتی ہیں۔
ہم مکالمہ و جرگہ کے ذریعے ایسی بہت سی گنجائش پیدا کرسکتے ہیں کہ چھوٹے اسکولز، ٹیکنالوجی سینٹر اور Mother Child Learning Center قائم ہوں۔ جن کا کم کرایہ ہو اور ٹرانسپورٹ کے خرچ و اذیت سے والدین و بچے بچ سکتے ہیں۔ یہ سینٹرز یا اسکولز بچوں کو پری پرائمری 3 تا 7 سال کی عمر میں پانچ سالوں کے لیے ماں کے ساتھ گود لیں اور پلے گروپ سے پرائمری کا انتظام و تعلیم ہو۔
اس پورے نظام میں انسانی نفسیات و صحت، کی خیال داری بنیادی نکتہ نظر ہو اور اپنے مٹی و دھرتی، کلچر و اقدار، عقیدہ و تہذیب اور مثبت روایات پیش نظر ہوں اور کلچر و ٹیکنالوجی ملکر ایک ایسا تعلیمی ماحول تشکیل دیں جس میں بنیادی پتھر ماں، والد اور خاندان ہوں اور ماں و ٹیچر ملکر مربی ‘‘Mentor’’ بن جائے تب ایک قلیل عرصے میں ممکن ہے کہ ہم تہذیب و ترقی کے راستے پر سفر شروع کرسکیں اور CPEC، ترقی و ٹیکنالوجی اور علم و ہنر کے روشن سفیر بن کر اپنے علاقے اور انسانوں کی خدمت کرسکیں۔
اس تعلیمی نظام کا واضح وژن ہو۔
149وقت کے بہتر استعمال (Time Management)، نیند (Sleep) روزمرہ معمولات زندگی اور خوراک پر
فطری و حقیقی آگاہی ہوں۔
149آداب زندگی اور اخلاقیات کی تشکیل واضح تر ہوں۔
149ٹیکنالوجی سے ہم آہنگی، واقفیت اور اس کے استعمال کے طریقے (Tools) ماؤں، اساتذہ اور طلبہ و طالبات کو سکھائے جائے۔
149تزکیہ اور ٹریننگ، صاف ستھرے، پاکیزہ اور سادہ زندگی کا تصور اور عملی مشق کا انتظام و رواج ہو۔
149موجودہ فرسودہ اور عملاً علم و ٹیکنالوجی سے دور ہمارے رواج و قدریں تبدیل کیے جائیں۔
149آخرت و ابدیت کا اعلیٰ تصور ہو اور فکر معاشی کا واضح تعین ہو۔
149کمانے اور دنیا کی زندگی کو قرآن کے الفاظ میں ’’حسنہ‘‘ بنانے کا جنون ہو مگر دولت جمع کرکے تکبر و خرابی اور وسائل کے ضیاع اور غلط رسوم کی ترویج کے بجائے معاشرتی حقوق کی ادائیگی اور خیر خواہی کے اعمال کو فروغ دیا جائے۔