فرق تو صرف عوام کو پڑتا ہے

561

مسئلہ بھی یہی ہے کہ پیپلز پارٹی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا ہے کہ کراچی میں سیاسی ہلچل سے پیپلز پارٹی کو فرق نہیں پڑے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کراچی کے مسائل بڑھنے کی۔ یہاں کون اقتدار میں آتا ہے، کس کو بلدیہ ملتی ہے، کس کا کنٹرول شہری اداروں پر ہوتا ہے، کون کون رکن پارلیمنٹ بنتا ہے، پارلیمنٹ میں جا کر کیا کرتا ہے، عوام سے کیے وعدے پورے کرتا ہے یا نہیں اس سے پیپلز پارٹی کو فرق نہیں پڑتا۔ کون کراچی میں کس سے بھتے وصول کرتا ہے اس سے پیپلز پارٹی کو فرق نہیں پڑتا۔ اس شہر کی ایک فیکٹری میں 260 افراد کو جلا کر مار دیا گیا سب کے سب کراچی کے تھے اس لیے پیپلز پارٹی کو فرق نہیں پڑتا اور جب پیپلز پارٹی کو فرق نہیں پڑتا تو عوام کا حال بھی نہیں بدلتا ان کو بھی فرق نہیں پڑتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے پاس سندھ کارڈ ہے وہ سندھی قوم پرستوں کی وفاقی جماعت بن گئی ہے اس لیے اسے صوبے اور وفاق دونوں جگہ ووٹ مل جاتے ہیں۔ اسی طرح متحدہ اور پی ایس پی مہاجر کارڈ کھیلتے ہیں اور جو مہاجر پی پی میں ہیں وہ تو رہیں گے لیکن مہاجر ووٹ بینک ان کا نہیں ہوسکے گا۔ لہٰذا پی پی اپنے ووٹ بینک کو سنبھالتی ہے اور متحدہ اپنے ووٹ بینک کو۔ متحدہ اور پی ایس پی کو کبھی اندرون سندھ کی فکر نہیں ہوئی۔ کیوں کہ انہیں اس سے فرق نہیں پڑتا کہ میرپور خاص، سندھڑی، رتو ڈیرو، نوابشاہ، سانگھڑ، نوشہرو، خیرپور وغیرہ سے کون جیتتا ہے اور کون ہارتا ہے، کون سی پارٹی کس سے اتحاد کرتی ہے۔ اندرون سندھ متحدہ، پی ایس پی یا حقیقی کو کوئی سیٹ نہیں ملے گی لہٰذا انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
پیپلز پارٹی کو جن چیزوں سے فرق پڑتا تھا وہ اس نے اپنے لیے درست کرلی ہیں۔ اسے کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پر متحدہ اور پی ایس پی کی اتھارٹی برداشت نہیں تھی لہٰذا اس نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بنا کر سارا کنٹرول خود سنبھال لیا۔ اب ہر بھتے، ہر ریگولرائزیشن ہر نقشے کی منظوری یہاں تک کہ ہر ٹرانسفر اور خرید و فروخت پر ایس بی سی اے کا حصہ ہے۔ متحدہ کا کنٹرول نہیں ہے لیکن اس کو بھی حصہ ملے گا۔ اسی طرح بلدیہ کراچی کے نصف درجن سے زیادہ محکمے پیپلز پارٹی نے اپنے کنٹرول میں کرلیے ہیں، متحدہ کے 50 کے قریب ارکان سندھ اسمبلی میں بیٹھے ہیں لیکن انہیں بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ہر ایک کو اس کا حصہ مل رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کو کنٹرول حاصل ہے اسے کیا فرق پڑتا ہے کہ میئر وسیم اختر ہیں یا مصطفی کمال۔ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اتھارٹی حکومت سندھ کے پاس اور سالڈ ویسٹ کراچی کی سڑکوں پر۔ پیپلز پارٹی کو کیا فرق پڑے گا۔ سیاسی ہلچل سے بھی انہیں فرق نہیں پڑتا اور گلیوں، سڑکوں، اسکولوں، ہسپتالوں کے سامنے مسجدوں کے اردگرد کچرے سے پیپلز پارٹی کو کیا فرق پڑے گا۔ فرق صرف عوام کو پڑتا ہے اور یہ کراچی کے عوام ہیں جو پیپلز پارٹی کو ووٹ نہیں دیتے جب وہ ووٹ نہیں دیتے تو کس کے ساتھ کون اتحاد یا انضمام کرتا ہے، اس سے پیپلز پارٹی کو کیا فرق پڑے گا۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کراچی میں بعض مقامات پر ٹریفک جام کی وجہ سے کار شوروم مالکان کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم جاری کردیا۔ اس پر حیرت تو ہونی چاہیے کہ کراچی کی سیاسی ہلچل سے انہیں فرق نہیں پڑتا تو خالد بن ولید روڈ اور نیو ایم اے جناح روڈ پر ٹریفک کی روانی میں خلل پڑنے سے انہیں کیا فرق پڑتا ہے۔ لیکن اس حوالے سے انہیں تھوڑا سا فرق پڑا ہے، ان کا قافلہ صرف چند لمحوں کے لیے ٹریفک میں رکا تھا تو انہیں فرق پڑا اور اب وہ چوتھی مرتبہ آئی جی سندھ کو حکم دے چکے ہیں کہ کار شوروم مالکان کو گاڑیاں درست مقامات پر کھڑی کرنے کا پابند بنائیں۔ لیکن اس سے کار شوروم مالکان کو فرق نہیں پڑتا۔ ایسے احکامات پہلے بھی ان پر بے اثر ہوچکے ہیں کیوں کہ نیو ایم اے جناح روڈ سے مزار قائد صاف نظر آتا ہے اور نوٹ پر قائد اعظم کی تصویر۔ پولیس کو پھر وزیراعلیٰ کا حکم کیسے نظر آئے گا۔وزیراعلیٰ کا اپنا قافلہ چند لمحے رکا تو فرق پڑ گیا تھا لیکن جب ان کے قافلے کے لیے گھنٹوں ٹریفک بند کیا جاتا ہے تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کراچی کو صرف وزیراعلیٰ سندھ نے نہیں خود کراچی کے دعویداروں نے لاوارث چھوڑ رکھا ہے، انہیں بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب الطاف حسین کراچی کے تنہا وارث یا دعویدار تھے اس وقت بھی کراچی میں بجلی جائے یا آگ لگے الطاف حسین کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ ایک ہفتے میں پانچ دن ہڑتال کراچی اور ملک کا بیڑہ غرق لیکن الطاف حسین کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ان کا میٹر چالو رہتا تھا۔ آج بھی مصطفی کمال، فاروق ستار، بابر غوری، رؤف صدیقی، رضا ہارون، ڈاکٹر عشرت العباد، عادل صدیقی وغیرہ سمیت کسی لیڈر کو کراچی بلدیہ کے نصف درجن سے زیادہ محکمے حکومت سندھ کے پاس جانے سے کیا فرق پڑ گیا۔ اگر وسیم اختر کے پاس بہت سارے اختیارات نہیں تو انہیں کیا فرق پڑ گیا۔ فرق تو عوام کو پڑتا ہے کہ گھر کے اندر پانی نہیں لیکن سڑکوں، گلیوں، بازاروں، اسکول، مسجد کے گیٹ اور ہسپتالوں کے سامنے گٹر کا پانی کھڑا ہے۔ کچرے کے ڈھیر آدھی سڑک پر پھیلے ہوئے ہیں، پہلے تو صرف ڈھیر تھے اب ڈھیر میں چھوٹے چھوٹے کچرے کے ڈبوں کا اضافہ ہوگیا ہے، ہر ڈھیر کے درمیان یہ ڈبے کھڑے ملیں گے۔ کچرا ان کے اندر کم اور چاروں طرف زیادہ ہوگا، اسے اٹھانے کا اختیار سالڈ ویسٹ اتھارٹی کے پاس اور فنڈز بھی۔ لیکن ذمے داری بلدیہ کراچی کی۔ نلکوں میں پانی، گھروں میں بجلی نہیں، مچھر مکھی کیڑوں مکوڑوں کی بہتات، ہسپتالوں میں دوائیں نہیں، ڈاکٹر نہیں اور دوائیں ہیں تو مہنگی ۔ اس سے وزیراعلیٰ، متحدہ، پی ایس پی کسی کو فرق نہیں پڑتا۔ فرق صرف عوام کو پڑتا ہے جن کو ایک دفعہ پھر مہاجر سندھی کے نام پر بے وقوف بنانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔