اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

236

سیدہ امضاء قدسیہ، جامعہ کراچی
حال ہی میں وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کی طرف سے اقبال ڈے کی چھٹی کی سمری مسترد کرنے کا فیصلہ سنایا گیا ہے۔اور باقاعدہ علامہ اقبال کے شعر کا حوالہ دے کر اس بات کو بنیاد بنایا گیا کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ کی تعلیم کا حرج، معیشت کا نقصان ہو گا۔چھٹی تو تین سال قبل چودھری نثار نے بھی منسوخ کردی کردی تھی لیکن یہاں قابل افسوس بات یہ ہے کہ اقبال ڈے و دیگر قومی شخصیت اور اہم ایام کی چھٹیوں کو جہاں منسوخ کیا وہیں دوسری طرف غیر مسلموں کے تہواروں اور ان کے مخصوص ایام پر عام تعطیل اور چھٹیاں دی جانے لگیں۔حال ہی میں ہندووں کا تہوار دیوالی جو اسلامی تہذیب سے کہیں سے بھی میل نہیں کھاتااور نہ ہی اس کا کوئی اثر اسلامی تہذیب میں پایا جاتا ہے۔اس تہوار پرپورے ملک میں عام تعطیل کروادی گئی تعلیمی اداروں کو بند کروادیا گیا ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ غیر مسلم، پاکستان میں اقلیت کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہاں پر ان کو بلاشبہ اپنی ثقافت اور مذہب کے لیے تمام حقوق حاصل ہیں لیکن ان کی ثقافت کو ایک اسلامی ملک پر مسلط کر کے اور ان کے تہوار کی خاطر ملک کی معاشی ،سماجی اور علمی کاموں کو جمود کا شکار کرنا سراسر ناانصافی ہے۔وزیر داخلہ کی نظرمیں اب طالب علموں کا کوئی نقصان نہیں ہوا؟معیشت پر کوئی پرق نہیں پڑا؟؟ملکی سرگرمیاں متاثر نہیں ہوئیں ؟ اور سب سے بڑھ کر ایک اسلامی ملک اور اسلامی تہذیب پر غیر مسلم تہواروں کو اہمیت اور ترجیح دینا کیا زیادتی نہیں ہے؟؟؟
حکومت پاکستان کی ذمے داری ہے کہ قومی تشخص اور سلامتی کو برقرار رکھتے ہوئے اقبال ڈے کی چھٹی کو بحال کرے اور اگر ایسا نہیں کرسکتے (جو ان کے بے ضمیر ہونے کی نشانی ہے) تو کم از کم ہندو سامراج اور غیر مسلم اقلیتوں کے تہواروں کی خاطر ملک کی سلامتی و تحفظ کو داو پر لگانے کے بجائے اس کے نظریات کی حفاظت کی فکر کریں۔