نئی سائنسی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ طبّی طور پر انسان کی موت واقع ہونے کے کچھ دیر بعد بھی دماغ کام کرتا رہتا ہے اور مرنے والے شخص کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ مر چکا ہے۔ نیویارک کے لینگون اسکول آف میڈیسن کے ڈائریکٹر برائے انتہائی نگہداشت ڈاکٹر سام پارنیا کا کہنا ہے کہ جب انسانی جسم میں زندگی کے تمام آثار ختم ہوجاتے ہیں تب بھی انسانی شعور کچھ دیر تک فعال رہتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ مر چکا ہے اور جب ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ مریض مرچکا ہے تو وہ یہ الفاظ بھی ممکنہ طور پر سن رہا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر سام پارنیا اور ان کی ٹیم اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ان لوگوں پر تحقیق کررہی ہے جنہیں دل کے دورے پڑے اور تکنیکی اعتبار سے وہ مرچکے تھے تاہم بعد میں انہیں بچا لیا گیا۔ تحقیق میں شامل چند لوگوں نے بتایا کہ ڈاکٹرز کی جانب سے انہیں مردہ قرار دیے جانے کے بعد بھی وہ ارد گرد ہونے والی باتیں سن سکتے تھے اور انہیں معلوم تھا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ مریضوں کی جانب سے بتائی جانے والی باتوں کی تصدیق ان ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف نے بھی کی جو اس وقت کمرے میں موجود تھے۔
طبی طور پر ایک شخص کو اس وقت مردہ قرار دے دیا جاتا ہے جب اس کا دل دھڑکنا بند کردیتا ہے اور اس کی وجہ سے دماغ تک خون کی رسائی معطل ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹر سام پارنیا کہتے ہیں کہ جیسے ہی دل دھڑکنا بند کرتا ہے انسان کو مردہ قرار دے دیا جاتا ہے، کیوں کہ خون دماغ تک نہیں پہنچتا اور دماغ فوری طور پر کام کرنا بند کردیتا ہے، انسان قوت سماعت، گویائی اور بصارت سے محروم ہو جاتا ہے لیکن دماغی خلیے کچھ دیر تک کام کرتے رہتے ہیں۔
اس بات کے بھی شواہد موجود ہیں کہ جب کسی انسان کی موت واقع ہوتی ہے تو اس کے دماغ سے توانائی کا اخراج ہوتا ہے۔ 2013 میں سائنس دانوں نے مشی گن یونیورسٹی میں 9 چوہوں پر ایک تحقیق کی تھی۔ ان چوہوں کو بے ہوش کرکے دوائی کے ذریعے ہارٹ اٹیک کرایا گیا تھا اور طبی طور پر مردہ ہونے کے کافی دیر بعد تک ان کے دماغ میں برقی سگنلز دیکھے گئے تھے۔
ڈاکٹر سام پارنیا کا کہنا ہے کہ جس طرح بعض محققین انسانوں میں محبت کے احساس کی پیمائش پر تحقیق کررہے ہیں اسی طرح وہ بھی یہ سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ جب انسان موت کے عمل سے گزر رہا ہوتا ہے تو اسے کیسا محسوس ہوتا ہے۔
انوشہ افتخار، کراچی یونیورسٹی
anoushaiftikhar@gmail.com