رابعہ عظمت
دوسری جنگ عظیم کی ہولناک بربادیوں اور لیگ آف نیشنز کی ناکامی کے بعد عالمی سطح پر ایسے ادارے کی شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی تھی جو دنیا میں امن وامان کے قیام کو یقینی بنا سکے۔ اقوام عالم کے تنازعات کو پر امن طریقے سے حل کرنے میں معاون ثابت ہو اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ دنیا کو تیسری جنگ عظیم سے بچایا جاسکے۔
ایسے میں اقوام متحدہ 29 اکتوبر1945ء کو معرض وجود میں آئی۔ آج 2017ء میں اس عظیم ادارے کے قیام کو 72 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اگرچہ اقوام متحدہ اپنے سابقہ اداروں کی طرح ناکام تو نہیں ہوئی لیکن امریکی وصہیونی طاقتوں کی آلہ کاربن کر رہ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 72 برس میں یونائیٹڈ نیشنز آرگنائزیشن جیسا عظیم ادارہ موثر کردار ادا کرنے میں نہ صرف ناکام رہا بلکہ دیرینہ تنازعات برقرار رہنے کے ساتھ نئے مسائل کا شکار بن چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ناکامی کا واضح ثبوت کشمیر اور فلسطین جیسے اہم مسائل کا تاحال حل نہ ہونا ہے۔ قابض اسرائیل اور بھارت نے گزشتہ 72 برس میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں جس کے باعث یہ خطے بدامنی کی دلدل میں بری طرح دھنس چکے ہیں۔ امریکا، اسرائیل اور بھارت نے اقوام متحدہ کے سامنے قیام امن کی راہ میں ایسی رکاوٹیں کھڑی کیں کہ یہ معتبر عالمی ادارہ اپنی ساکھ بحال نہ رکھ سکا۔
قیام امن کے لیے کی جانے والی کوششوں میں اقوام متحدہ کی ناکامی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج بھی دنیا کے 16 خطوں امن سے محروم ہیں اور اس حوالے سے اقوام متحدہ کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ تاہم 72 برس کے دوران اقوام متحدہ کے 3553 اہلکار اپنی جان دے چکے ہیں اور ابھی بھی ایک لاکھ 14 ہزار اہلکار دنیا کے دیگر علاقوں میں فرائض انجام دے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جانب سے بنیادی حقوق کی عدم فراہمی کی یہ واضح مثال ہے کہ دنیا کی تقریباً ایک ارب کی آبادی خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے جس کے باعث82 کروڑ افراد دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیں۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ اگر ایک طرف غربت کے باعث خوراک دینا اہم مسئلہ ہے تو دوسری جانب پینے کے صاف پانی کی فراہمی بھی اقوام متحدہ کو درپیش بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔
اعداد شمار کے مطابق دنیا کی 50 فیصد آبادی خوراک کے لیے استعمال ہونے والے تیل اور گھی تک رسائی نہیں رکھتی جس کے باعث مختلف النوع بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ افسوس کہ 21 ویں صدی کے جدید ترین دور میں عالمی آبادی کا 15 فیصد حصہ انتہائی بنیادی ضروریات سے ہنوز محروم ہے۔ جس کی بدولت یہ خطے آج بھی قدیم دور کی عکاسی کررہے ہیں۔ اقوام متحدہ بچوں کی بنیادی ضرورت تعلیم کو پورا کرنے میں بھی ناکام رہا جس کی وجہ سے آج بھی عالمی سطح پر ہر 12 واں بچہ چائلڈ لیبر کا حصہ ہے۔
اپنے قیام کے فوری بعد اقوام متحدہ نے”It’s your World” کا نعرہ بلند کیا تو بہت سے غریب ممالک کے نادان سربراہوں نے یہ سمجھ لیا کہ شاید ہمارا واقعی کوئی سرپرست آگیا ہے جو دنیا میں ان کا حق انہیں دلوائے گا۔ لیکن حقیقت میں نعرہ صرف طاقتور قوتوں کے لیے تھا اور اب اقوام متحدہ ان طاقتور قوتوں کا ایسا ہتھیار بن چکا ہے جس کی مدد سے انہوں نے مسلم ملکوں کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے ۔
شام ‘ عراق‘ لیبیا اور افغانستان کے حالات اس کی واضح عکاسی کرتے ہیں جبکہ وطن عزیر بھی ان قوتوں کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ نہیں بلکہ الٹا ان کے نشانے پر ہے۔ برما کے مظلوم مسلمانوں کی ہولناک صورتحال سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اقوام متحدہ کو صرف مسلمانوں کی بربادی کے لیے تشکیل دیا گیا۔ وگرنہ میانمر کے بے بس و مظلوم مسلمان اپنی سرزمین سے یوں بے دخل ہوکر بے سروسامانی کی حالت میں دربدر نہ ہوتے ۔
میانمر کے لاکھوں مسلمان محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ وحشی ودرندہ صفت برمی فوجیوں اور مسلمانوں کے قاتل بودھوؤں سے اپنی زندگی بچانے کے لیے خطرناک جنگلوں ، دلدلوں کو پارکرہے ہیں اور سیکڑوں سمندر کی بے رحم موجوں کی نذر ہوچکے ہیں ۔ افسوس اقوام متحدہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی بلکہ جمہوریت کی علمبردار سوچی کو مسلمانوں پر مظالم ڈھانے کی کھلی چھوٹ دیدی گئی ہے۔
فلسطین کے علاقوں اور خاص طور پر بیت المقدس کے گردونواح میں یہودی بستیوں کی تعمیر قیام امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ لیکن اقوام متحدہ عالمی برادری حقوق انسانی کی پامالی پر خاموش ہیں اور جس دن سے فلسطین کے مظلوم لوگوں نے اپنی حریت اور مقدسات کے تحفظ اور اپنے حقوق کی جنگ لڑنا شروع کی تو عالمی برادری کو ان سے دہشت گردی کا خطرہ لاحق ہوگیا اور ایک سازش کے تحت دہشت گردی کا لیبل امت مسلمہ کے لیے مخصوص کردیا گیا ہے۔
طاقت کے فلسفے پر قائم اس ناجائز ریاست کے ظلم وستم کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔ 1941ء میں فلسطین میں رہنے والے یہودیوں کی تعداد صرف80 ہزار تھی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا تو عالمی برادری نے فلسطین کی تقسیم کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد 1967ء میں پھر ایک جنگ کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں یہودی تمام فلسطین پر قابض ہوگئے اور وہاں کے مقامی فلسطینیوں کو انہی کے ملک سے بے دخل کردیا گیا۔
1967ء میں مصرسے غزہ کی پٹی چھیننے کے علاوہ یہودیوں کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ انہوں نے قبلہ اول بیت المقدس پر قبضہ کرلیا اور اس کا نام یروشلم رکھ دیا ۔ تاحال فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے۔ عالمی ادارے نے اسرائیل کو لگام ڈالنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی بلکہ اسے فلسطینیوں کو اذیتیں پہنچانے میں عالمی سرپرستی حاصل ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے حالات بھی فلسطین سے مختلف نہیں ۔ بھارتی قابض افواج نے کشمیر کے چپے چپے کو چھاؤنی بنا رکھا ہے ۔ کشمیری گزشتہ 70 برس سے اپنے حق آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں مگر اقوام متحدہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے منظور کروائی گئی قرارداد پر عمل کرانے میں ناکام ہوچکا ہے ۔ اُدھر بھارت اپنی روایتی ہٹ دھر می پر قائم ہے ۔ نہتے کشمیری ہاتھوں میں پتھر اٹھائے اسرائیلی ساختہ مہلک ہتھیاروں سے لیس درندہ صفت بھارتی افواج کے خلاف برسر پیکار ہیں۔
اقوام متحدہ سمیت عالمی طاقتوں نے کشمیر کے معاملے میں چُپ سادھ رکھی ہے۔ ہاں اگر بھارت نے آزادی کا حق مانگنے والے مسلمان نہ ہوتے تو شاید انہیں برہمن سے نجات دلا دی جاتی۔ لیکن کشمیریوں کو مسلمان ہونے کی سزادی جارہی ہے۔ افغانستان میں ڈرون طیاروں کے حملے، امریکی افواج کی جارحیت دنیا کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ امریکی نیٹو افواج نے مسلمان ممالک میں ظلم روا رکھا۔
کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال سے انسانی جانوں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے جس کی تلافی ممکن نہیں۔ مختصراً یہ کہ اقوام متحدہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے کہ یہ عالمی ادارہ 72 برس میں بھی کشمیر سمیت دیگر کئی تنازعات کو حل کرانے میں ناکام رہا ہے۔آخر اقوام متحدہ کیا کررہی ہے۔؟