’نظام کی تبدیلی میں عدلیہ کا کردار‘

551

مضبوط ادارے اور آزاد عدلیہ پاکستان کی ترقی کے ضامن ہیں‘ ویمن اسلامک لائرز فورم کے کنونشن سے مقررین کا خطاب

غزالہ عزیز

خواتین آج زندگی کے ہر شعبے میں اپنا لوہا منوا رہی ہیں ۔ یہاں تک کہ کمرہ عدالت میں بھی پورے اعتماد کے ساتھ انصاف کی جنگ لڑ رہی ہیں ۔ یہ کام ان کے لیے نیا نہیں۔ یہ تو وہ ایک عرصے سے کر رہی ہیں ۔ نیا کام یہ ہے کہ انہوں نے ویمن اسلامک لائرز فورم کے تحت ایک ادارہ بنایا۔ یہ2009ء میں عمل میں آیا۔ اس کا سلوگن ہے ’انصاف کی روشنی میں‘۔ اس وقت سے لے کر اب تک انہوں نے اپنے بہت سے اہداف کامیابی سے حاصل کیے ہیں اور سال بہ سال یہ ادارہ اپنے مقاصد میں کامیابی کی جانب گامزن ہے۔ ہر سال مختلف پروگرامز کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔ رواں برس 2017ء کے کنونشن میں ہمیں بھی شرکت کا موقع ملا۔ مقامی ہوٹل میں منعقدہ اس تقریب شرکا کی بڑی تعداد موجود تھی۔ سفید کوٹ اور اسکارف پہنے Willفورم کی خواتین وکلا کنونشن کے انتظام کے لیے مستعد تھیں ۔
کنونشن کا عنوان تھا ’ ترقی پاکستان کے لیے موجودہ نظام کی تبدیلی میں عدلیہ کا کردار‘
اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ پاکستان کی ترقی کے موجودہ نظام کی تبدیلی ضروری ہے لیکن یہ بات سمجھنا ابھی باقی تھی کہ عدلیہ کا کردار اس میں کیا ہو گا۔
کنونشن کے اسپیکرز نے اس موضوع پر خطاب کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ا ن کے خطاب سے بات واضح ہوئی کہ عدلیہ اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہے لیکن ان کے راستے میں مسائل ہیں جن کا حل جاننا ضروری ہے ۔
سب سے پہلے(ILM) سندھ کے صدر اور ایڈووکیٹ سپریم کورٹ غلام قادر جتوئی نے کہا کہ ہمارے نظام میں رو نما ہونے والی تبدیلیوں کے لیے عدلیہ کی کمزوری کو ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے ۔ کام کو التوا میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ جس کی وجہ سے فیصلے بر وقت نہیں ہوتے جو نا انصافی کے برابر ہے۔ نظام کی خرابی کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عدلیہ ہر قسم کے دبائو اور تعصب سے پاک ہو اور ججز کا انتخاب صرف میرٹ کی بنیاد پر ہو۔ ترقی پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ عدلیہ اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہو اور فیصلے صرف اور صرف ملک کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھ کر کیے جائیں ۔
اس کے بعد بیرسٹر شہاب سرکی، صدر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن نے کہا کہ نظام کی تبدیلی مثبت سوچ سے وجود پاتی ہے۔ لہٰذا عدلیہ اور وکلا دونوں کے لیے حالات اور قانون سے آگاہی انتہائی ضروری ہے۔ کنونشن میں ملیر بار ایسو سی ایشن کے صدر بیرسٹر فیاض سمور بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’حکومت ناکام ہو تو عدلیہ ہی کردار ادا کرتی ہے۔ موجودہ نظام کو تبدیل کرنے کے لیے کئی بار آرمی چیف نے فوج کو استعمال کیا۔ انہوں نے کہا کہ18ویں ترمیم میں ایک سقم موجود ہے کہ آرٹیکل 2 کوrevisit کر کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔
بیرسٹر نعیم قریشی، صدر کراچی بار ایسو سی ایشن نے کہا کہ پاکستان کو بنانے میں وکلا نے تاریخی کردار ادا کیا تھا ۔ زندگی بھر کی عبادتوں سے انصاف کا ایک لمحہ بہتر ہے۔ اگرچہ وکلا نے عدلیہ کی آزادی کے لیے اہم کردار ادا کیا لیکن عدلیہ آج بھی آزاد نہیںہے۔ من پسند لوگوں کو ریلیف دیا جاتا ہے اور عام لوگوں کے مقدمات التوا میں ڈال دیے جاتے ہیں ۔آج انصاف مخصوص لوگوں تک محدود ہے۔ جب تک نظام کو بدلا نہیں جائے گا عام آدمی کو انصاف فراہم نہیں کیا جا سکتا اور نظام کو صرف ووٹ کے ذریعے بدلا جا سکتا ہے ۔
ایس پی ویمن جیل شیبا شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تقریباً 10 برس قبل جیل کے کام کا آج کے دور سے موازنہ کیا جائے تو بہت سی مثبت تبدیلیاں موجود ہیں۔ جیل میں رفاہی کام ہو رہے ہیں۔ مفت قانونی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ جیل کے اندر خواتین کو دست کاری سمیت ہنر بھی سکھائے جاتے ہیں تاکہ وہ باہر نکل کر مفید کام کر سکیں۔ آخر میں چیئرپرسن وِل فورم ایڈووکیٹ طلعت یاسمین نے اختتامی خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان صرف ایک خطہ زمین کا نام نہیں بلکہ ایک نظریہ، فلسفہ اورایک عقیدہ ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ موجودہ پاکستان اتنا زخم خوردہ، بد عنوانی کا شکار، مقروض، سرمایہ کاروں اور جاگیرداروں کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وطن عزیز پر مفاد پرست لوگ قابض ہو گئے ہیں۔ یہ بات سو فیصد درست ہے کہ پاکستان کی ترقی آزاد عدلیہ پر منحصر ہے ایسی عدلیہ جو اپنے فیصلوں میں آزاد ہو تو اس کے نتیجے میں ادارے مضبوط ہوں گے اور پاکستان ترقی کرے گا ۔ کنونشن کے اختتام پر قرار داد پیش کی گئی جس کے لیے شرکا نے بڑے جوش و خروش سے ہاتھ اٹھا کر اس کی منظوری دی ۔ میزبانوں کی طرف سے پر تکلف چائے کی دعوت پر فورم کا اختتام ہوا ۔

قیدی بچوں کے لیے قانونی امداد

وِل فورم کی فرض شناس وکلا جیل میں قیدایسے بچوں کا انتخاب کرتی ہیں، جو عادی مجرم نہیں ہوتے اور نہ ہی کسی گروہ کا حصہ ہوتے ہیں۔ وہ ان بچوں کو مفت قانونی معاونت فراہم کر کے ساتھ ان کی رہائی کے لیے کاوشیں بھی کرتی ہیں۔ وِل فورم کی وکلا کی سوچ کا دائرہ محض یہیں تک محدود نہیں کہ صرف کیس لڑنے پر اکتفا کیا جائے بلکہ وِل فورم نے قیدی بچوں کو معاشرے کا موثر فرد بنانے کے لیے جیل میں ذہنی اور روحانی ہفتہ وار 2 کلاسز کا انعقاد کیا ہے تاکہ ان کے ساتھ مل کر انہیں جرائم سے توبہ کی ترغیب دی جاسکے۔ اس کے ساتھ بچوں کو ہنر مند بنانے کے لیے کمپیوٹر کورسز بھی کروائے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے لیے اچھا شہری بننے کے تمام مواقع اور سرگرمیاں بھی ترتیب دی جارہی ہیں تاکہ جیل سے نکلنے کے بعد وہ حلال روزگار کماسکیں۔ اسی حوالے سے ول فورم جیل میں قید بچوں کے لیے مخصوص ورکشاپس کا بھی اہتمام کرتا ہے جس کے ذریعے نہ صرف بچوں میں قید میں رہنے کے منفی نفسیاتی اثرات کا تدارک کیا جاتا ہے بلکہ ایک اچھے اور ذمے دار شہری بننے کے حوالے سے تربیت بھی دی جاتی ہے۔ ایسی تربیتی ورکشاپ کے لیے وِل فورم کے وکلا ملک کے اعلیٰ ذہین تربیتی اداروں کی خدمات حاصل کرتی ہیں۔ ایسے ہی ایک ادارے نے جیل میں قید بچوں کو مد نظر رکھتے ہوئے خصوصی تربیتی کورس ترتیب دیا ہے۔ جس کے ذریعے بچوں کی ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی تربیت کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اس کورس میں ان بچوں کے حوالے سے خصوصی مشقیں شامل جو منشیات کے عادی رہ چکے ہیں۔ وِل فورم کی اس کاوش کا نتیجہ ہے کہ جیل میں قید بچے رہائی کے بعد ایک نئی زندگی کے آغاز کے لیے پرعزم ہیں۔
بچوں کے لیے جیل میں تعلیمی سرگرمی

کمپیوٹر سینٹر:

٭ وِل فورم کے تحت کراچی کی بچہ جیل میں موجود کمپیوٹر سینٹر میں کلاسز جاری ہیں ۔ 4 کمپیوٹر کورسز مکمل کروائے جا چکے ہیں جس میں کامیاب ہونے والے بچوں کی تعداد 50 تھی ۔
تقاریب تقسیم اسناد:
٭ کراچی بچہ جیل کے کمپیوٹر سینٹر میں 5 بیجز مکمل ہونے پر وِل فورم نے سال میں 5 بار تقریب تقسیم اسناد کا انعقاد کیا جس میں چیئرپرسن وِل فورم طلعت یاسمین سمیت فورم کے تقریباً تمام ارکان، DSP، اسسٹنٹ DSP، پینٹنگ ٹیچر بچہ جیل اور مخیر خواتین نے شرکت کی ۔ کل 62 بچوں کو کمپیوٹر سرٹیفکیٹ دیا گیا ۔

کنونشن کے مقررین

1۔ غلام قادر جتوئی
(صدر ILM سندھ ۔ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ)
2۔ بیرسٹر شہاب سرکی ( صدر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن)
3۔ بیرسٹر نعیم قریشی (صدر کراچی بار ایسو سی ایشن)
4۔ بیرسٹر فیاض سموں( صدر ملیر بار ایسو سی ایشن)
5۔ شیبا شاہ( ایس پی ویمن جیل)
6۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین(چیئر پرسن وِل فورم)

مقاصد

ویمن اسلامک لائرز فورم کا قیام 2009ء میں عمل میں آیا۔ وِل فورم ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جو کہ سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہے۔ وِل فورم عدالتی نظام میں اپنی اسلامی شناخت کے ساتھ سرگرم عمل ہے۔ اپنے سلوگن Justice Through Integration Of Quran کے تحت کام کررہا ہے اور اسی اصول کو عملہ جامہ پہنانے کے لیے وِل فورم وکلا کے درمیان آگاہی کے لیے مختلف پروگرامز کا انعقاد کرتا ہے۔ وِل فورم اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اجتماعیت کے بغیر مقاصد کا حصول ممکن نہیں۔ لہٰذا زیادہ سے زیادہ خواتین وکلا کو اپنے کاروان میں شامل کیا جائے۔ اس سلسلے میں ایسی خواتین وکلا جو نظام میں تبدیلی یا اصلاحات کی خواہش رکھتی ہوں اور قانون کی حکمرانی پر یقین کرتی ہوں، جو اصولوں کی پاسداری کرنا چاہتی ہوں، کو ایک فورم پر جمع کیا جائے تاکہ تمام خواتین وکلا اس پر اپنی قوت کو مجتمع کرکے ایک لائحہ عمل مرتب کریں اور یہ طے کریں کہ اس لائحہ عمل پر عملدرآمد کیسے کیا جائے۔ 9 برس قبل اپنے آغاز سے آج تک وِل فورم اپنے مقصد کی طرف گامزن ہے۔ الحمدللہ فورم نے اپنے مقاصد کو بڑی خوش اسلوبی سے حاصل کیا۔ پرانے منصوبوں کو استحکام کے ساتھ توسیع دینا خصوصاً بار پروگرام کے ذریعے وکلا میں زیادہ سے زیادہ روابط بڑھانا ہے۔ جس کے نتیجے میں وِل فورم قانون دانوں پر مشتمل ایک موثر گروپ کی صورت عملی اقدامات کا مظاہرہ کررہا ہے۔ فورم نے بینچ اور بار کے درمیان ایک بہترین تعلق قائم کیا ہے۔ چونکہ عدالتی نظام میں بھی خواتین وکلا اور ججز بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ جو بحالت مجبوری اس فرسودہ نظام کا حصہ بن چکے ہیں۔ سوچنے والا ذہن کسی بھی قوم کا عظیم سرمایہ ہوتا ہے۔ مگر جب وہ بھی اصلاح کی کوئی راہ نہیں پاتا تو مایوس ہوکر لوٹنا شروع ہوجاتا ہے۔ اسی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے خواتین وکلا جیسے باشعور طبقے میں تحریک پیدا کرنے کے لیے ویمن اسلامک لائرز نے اپنے آگاہی پروگرام کا آغاز کیا۔ وِل فورم کے بنیادی مقاصد میں وکلا میں اسلامی نظریات پروان چڑھانا، جس کے نتیجے میں وکلا اپنی زندگی اور عدالتی نظام کو قرآن وسنت کے معیار کے مطابق ہموار کرسکیں۔ عدلیہ کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنا اور بالخصوص خواتین وکلا کی قومی ، سیاسی اور سماجی مسائل میں رہنمائی کرنا ہے۔ لیگل اور بار کونسل میں خواتین وکلا کو جو تحفظات دیے گئے ہیں انہیں یقینی بنانے کی کوشش کرنا شامل ہے۔

قرار داد کے مطالبات

1۔ عدلیہ قرآن و سنت کے منافی بننے والے تمام قوانین پر از خود ایکشن لے کر ان قوانین کو کالعدم قرر دے ۔
2۔ نظریہ پاکستان اور آئینِ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تحفظ کومد نظر رکھتے ہوئے تمام سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر فیصلے کیے جائیں ۔
3۔ ججز کا تقرر میرٹ پر اور کسی دبائو یا سیاسی وابستگی کے بغیر کیا جائے اور ان کی دینی استعداد کو ضرور ترجیح دی جائے تاکہ وہ فیصلہ کرتے وقت پاکستان کے وسیع تر مفاد کو اہمیت دیں۔
4 ۔ عدلیہ کرپشن کے خاتمے کو اولین ترجیح دے ، جس کے لیے ضروری ہے کہ قوانین کا اطلاق اور نفاذ طاقتور اورکمزور پر یکساں ہو ۔
5۔ ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے والے عوامل تعلیم کا فقدان، غربت اور بے روزگاری ہیں، حکومت اور عدلیہ دونوں کی ذمے داری ہے کہ ان کے اسباب کا ادراک کر کے ان کا سدباب کیا جائے ۔