لسانی سیاست سے قبرستان ہی آباد ہوں گے 

366

کراچی اور سندھ کے شہری عوام کو بے وقوف بنانے کا عمل زور دار طریقے سے دوبارہ بلکہ کئی بارہ شروع ہو چکا ہے ۔ طریقہ کار وہی پرانا ہے جو شیخ مجیب نے مشرقی پاکستان میں اختیار کیا ۔ جو سندھ ، بلوچستان اور صوبہ سرحد میں اور سندھ شہری علاقوں میں قوم پرستوں نے اختیار کیا تھا ۔ یعنی اپنی قوم کے نام پر خوب شور مچایا اس کے حقوق کے دعوے کیے پھر اختیار حاصل کیا اور اپنی ہی قوم کو لوٹ لوٹ کر ختم کر ڈالا ۔ کراچی و حیدرآباد میں جب قوم پرستی یا لسانی تحریک اٹھی تو سب سے زیادہ نعرہ مہاجروں کے حقوق اور محرومی کا لگایا گیا لیکن تیس سے بتیس سال گزرنے کے باوجود مہاجر اسی طرح محروم ہیں اور اسی طرح حقوق کے لیے ترس رہے ہیں جس طرح تیس برس قبل تھے اس دوران الطاف حسین نے درجنوں مرتبہ سیاست چھوڑنے کے اعلانات کیے ۔ لیکن ایک دو گھنٹے سے زیادہ وہ بھی قائم نہیں رہے ۔ ایک مرتبہ پھر مہاجروں کو نئے سبز باغ دکھائے جا رہے ہیں ان کے نام پر وہ لوگ لڑ رہے ہیں جنہوں نے 30برس میں مہاجروں کو کچھ فائدہ نہیں پہنچایا ۔ گزشتہ دنوں اسٹیبلشمنٹ اور نامعلوم قوتوں نے28برس را کاایجنٹ رہنے کا اعتراف کرنے والے مصطفی کمال اور اتنا ہی عرصہ را کا ایجنٹ رہنے والے فاروق ستار وغیرہ کو ایک پلیٹ فارم ایک نام اور ایک پرچم پر انتخاب لڑنے کے اعلانات پر مجبور کر دیا ۔ فاروق ستار را کے ایجنٹ اس لیے کہ ان کے ساتھ28برس کام کرنے والے مصطفی کمال نے را کا ایجنٹ ہونے کا اعتراف کیا اور وہ پاک صاف ہو گئے ۔ یقیناً مصطفی کمال نے سچ کہا ہوگا ۔ بلکہ سچ ہی کہا تھا اب تو الطاف حسین کو بھی بھارتی ایجنٹ قرار دیا جا چکا ہے ۔ جس روز مصطفی کمال اور فاروق ستار ایک ہونے کا اعلان کر رہے تھے اسی رات کو ڈاکٹر فاروق ستار نے فیصلے سے اختلاف کا اظہار کر دیا پھر اگلے روز پریس کانفرنس میں اہم اعلان کرنے کا دعویٰ کیا یہ بھی الطاف حسین کے دعوؤں کی طرح نکلا ۔ گھنٹے بھر میں سیاست چھوڑنے کا اعلان واپس ۔ اس قسم کے دعوؤں اور اعلانات سے قطع نظر جو کچھ مہاجروں کے نام پر ہو رہا ہے وہ اسی تیس پینتیس برس کی کہانی کا دسواں پندرھواں ری پلے ہے ۔ اب میڈیا صبح سے شام تک فاروق ستار اور مصطفی کمال کے دعوؤں کے تعلق سے ڈھول پیٹ رہا ہے۔ مصطفی کمال نے دعویٰ کیا ہے کہ فاروق ستار کی خواہش پر اسٹیبلشٹمنٹ نے ملاقات کرائی ۔ لیکن مصطفی کمال نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کس کے کہنے پر ملاقات کے لیے گئے تھے جبکہ ڈاکٹر فاروق ستار کہتے ہیں کہ ہم تو صاف ستھری پاک صاف متحدہ قومی موومنٹ بنا چکے ہیں ۔ مصطفی کمال اِدھر اُدھر مارے مارے پھر رہے ہیں ڈاکٹر فاروق ستار کو اچانک مہاجر شداء یا د آگئے برسوں سے قبرستان کا دروازہ نہیں کھلا تھا یا کلید بردار بھی لسانی سیاست کا شکار ہو کر کسی قبرستان میں ہے انہیں تالا توڑ کر مہاجر شہداء کی یاد گاروں پر فاتحہ خوانی کے لیے جانا پڑا ۔ بڑی خوشی کی بات ہے انہیں اپنی پارٹی کے وہ لوگ یاد آئے جنہیں یہاں ان کی اپنی سیاست نے پہنچایا اور الطاف حسین سے اختلاف کرنے والے بھی بہت سے لوگ یہاں یہ وہی یاد گار شہداء بھی الطاف حسین یا ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان کا مشترکہ ورثہ ہے ۔ دونوں اس کے نام پر سیاست کر رہے ہیں ۔ مصطفی کمال، فاروق ستار کا زخم لیے شہر کے درجنوں مقامات پر کیمپ لگانے اور دورے کر نے کے بعد پریس کانفرنس میں پھٹے ۔ وہ کہنے لگے کہ ہم قبرستان آباد نہیں کریں گے ۔ مہاجروں کو آباد کریں گے ۔ ان کے اس دعوے پر کیا کہا جائے سب کو یاد آ جائے گا کہ 28 برس تک قبرستان کون آباد کرتا رہا ۔ ڈاکٹر فاروق ستار یاد گار شہداء یا مہاجر شہداء کے قبرستان چلے گئے ۔ وہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کے 260 میں 26 گھروں میں ہی چلے جاتے ۔ انہیں بھی پتا چل جاتا کہ اب لسانی سیاست کے بارے میں مہاجر کیا سوچ رہے ہیں اور ذرا مصطفی کمال شہر کے 12 مقامات پر ممبر سازی کیمپ لگانے کے بجائے حماد صدیقی ، رؤف صدیقی ، عادل صدیقی اور رضوان کی تصاویر والے بینرز اٹھا کر خود بھی بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کے شہداء کے گھروں تک تو جائیں ۔ ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ فاروق ستار اور مصطفی کمال دونوں اعتراف کر رہے ہیں کہ ہمیں تو اسٹیبلشمنٹ نے ایک جگہ بٹھایا تھا لیکن پھر بھی مہاجر کا نعرہ لگا رہے ہیں ۔خدا معلوم مہاجروں کو یہ بات کب سمجھ میں آئے گی کہ لسانی سیاست میں صرف زہر ہوتا ہے اور اس زہر سے وہی لوگ مرتے ہیں جن کے نام پر سیاست کی جاتی ہے ۔ مہاجر سیاست سے 35ہزار مہاجر جوان مرے ہیں جبکہ دوسری زبان بولنے والے بھی ان کے ساتھ مارے گئے ۔ 1987ء تک کراچی سے کوئی لاشیں پشاور کوئٹہ یا پنجاب و سندھ کے دیہات جاتی تھیں تو کراچی سے کوئی اردو بولنے والا ساتھ جاتا۔۔۔ واپسی میں اس کے گھر والوں سے دعائیں لے کر آتا ۔ کیونکہ اس وقت تک لوگ زبان کی نفرت کی بنیاد پر نہیں مارے جاتے تھے ۔ کوئی حادثے میں کوئی جھگڑے میں کوئی طبعی موت مرتا تھا ۔ لیکن کبھی لاش یا میت پہنچنے پر احتجاجی جلوس یا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آتا تھا ۔ 1987ء کے بعد سے الطاف حسین ، فاروق ستار ، عمران فاروق ، عامر خان ، آفاق احمداور بعد میں آنے والے مصطفی کمال ، عادل صدیقی ، رؤف صدیقی ، وسیم اختر ، بابر غوری وغیرہ نے یہ لاشیں بھجوانے میں اور 25 ہزار مہاجر نوجوانوں کا قبرستان آباد کرنے میں اپنا اپنا حصہ ادا کیا اور جو وصول کیا وہ بھی نظر آ رہا ہے ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مصطفی کمال جس حقیقت کا برملا اظہار کر رہے ہیں کہ ایم کیو ایم پاکستان جنرل بلال اکبر کے دفتر میں بنی ،8گھنٹے رینجرز کے پاس رہے اور پارٹی سربراہ بن کر نکلے ۔ اس پر رینجرز نے کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے صرف فاروق ستار کہہ رہے ہیں کہ مصطفی کمال حساس اداروں پر سنگین الزامات لگا رہے ہیں اداروں کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے ۔ لیکن یہ نہیں بول رہے کہ سیاست میں ادارے کیوں گھسے چلے آرہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ الطاف حسین کی قیادت میں ایم کیو ایم بنتے وقت بھی جنرل ضیاء الحق کا حیدرآباد سرکٹ ہاؤس کا اجلاس ریکارڈ پر ہے جس میں مولانا وصی مظہر ندوی ، نواب یامین صاحب ، عبدالوحید قریشی اور دیگر لوگ موجود تھے ۔ جنرل ضیاء نے سب کے سامنے کہا تھا کہ ایم کیو ایم تو جے یو پی کو قابو میں لانے کے لیے ہم نے بنائی ہے اس پر انہیں بتایا گیا کہ اجلاس میں جے یو پی کے نمائندے موجود ہیں تو انہوں نے جماعت اسلامی کا نام لیا ۔ جب جماعت اسلامی کے نمائندے کی موجودگی کی بابت بتایا گیا تو بات گھما کر میٹنگ ختم کر دی ۔ مہاجر قیادت اور سیاست کرنے والے اگراس مقصد کو سمجھتے بھی ہو ں گے تو وہ وہی کریں گے جو انہیں ہدف دیا گیا ہے لیکن مہاجروں کو کیا ہو گیا ہے یہ تو ان لوگوں کی اولاد ہیں جنہوں نے پاکستان بنایا اور سب پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔ لا الا الا اللہ پر متفق تھے ۔ جب تک اسلام سے اور نظریہ پاکستان سے وابستہ رہے کم از کم رسوائی مقدر نہ تھی پورے ملک میں عزت ووقار کے ساتھ سر اٹھا کر چلتے تھے لسانی سیاست نے پوری مہاجر قوم کو ملک بھر میں مشتبہ بنا کر رکھ دیا اور قیادتوں کو دیکھیں الطاف حسین 25برس سے ملک سے باہر بیٹھے ہیں مہاجروں کے غم میں لندن کے مہنگے ترین علاقوں میں مہاجروں کے چندوں اور بھتوں پر گزارہ کر رہے ہیں ۔ باقی’’غریب‘‘ لوگ بھی لندن اور دبئی میں ہیں ۔ خود مصطفی کمال کئی سال دبئی میں رہے اور غریب کے غریب رہے ۔ ساٹھ ستر لاکھ کی گاڑی ان کے پاس ہے لیکن غریب مہاجر کے لیڈر ہیں۔ مہاجر یا لسانی سیاست کرنے والے کچھ، کہیں مہاجروں کاتجربہ ملک کے دوسرے علاقوں میں بڑا تلخ ہے ۔ اب بھی اگر لسانی سیاست پر ہی اصرار رہا تو اردو بولنے والوں کو کچھ نہیں ملے گا ۔ سب کی بقا صرف اور صرف اسلامی پاکستان میں ہے اسلامی پاکستان ہی خوشحال پاکستان کی ضمانت ہے ۔