25صفر المظفر آپ کا یومِ وصال ہے، اس دن یا پورے ماہِ صفر المظفر میں اہلِ عقیدت ومحبت آپ کا عرس مناتے ہیں، یہ سعادت کی بات ہے۔ عظمتِ باری تعالیٰ، عشق ومحبتِ رسول ؐ، تکریمِ اولیائے کرامؒ اور حمیتِ دینی اُن کی رگ وپے میں پیوست تھی، اس لیے عشق مصطفی ؐ اُن کی پہچان اور اُن کی شخصیت کا عنوان بن گیا۔ اہلِ عقیدت نے اسے آگے بڑھایا، خطابت کے شہسواروں اور نعت خواں حضرات نے اس کی مارکیٹنگ کو اوجِ کمال تک پہنچا دیا۔ عشق برتنا تو یقیناًدشوار ہے، اس راستے میں طائف، بدر، اُحد اور احزاب کی منزلیں آتی ہیں، اُحُد میں آپ خود زخمی ہوئے، آپ کے دندانِ مبارک شہید ہوئے، غزوۂ احزاب میں آپ کی چار نمازیں قضا ہوئیں اور اس کے ہولناک منظر کو قرآنِ کریم نے ان کلمات میں بیان فرمایا ہے: (1) ’’(اس وقت کو یاد کرو) جب کفار تمہارے اوپر سے اور تمہارے نیچے (یعنی ہرجانب) سے تم پر حملہ آور ہوئے، جب (دشمن کی ہیبت سے) تمہاری آنکھیں پتھرا گئی تھیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے تھے اور تم اللہ کی (نصرت کے بارے میں) طرح طرح کے گمان کرنے لگے تھے، اس موقعے پر مومنوں کی آزمائش کی گئی تھی اور ان کو شدت سے جھنجھوڑ دیا گیا تھا، (الاحزاب: 10-11)‘‘۔ (2) ’’کیا تم نے یہ گمان کرلیا ہے کہ تم (یونہی) جنت میں داخل ہوجاؤ گے، حالاں کہ ابھی تم پر وہ (مصیبتیں) نہیں آئیں جو تم سے پہلوں پر بیت چکیں، ان پر آفتیں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ (اس قدر) جھنجھوڑ دیے گئے کہ (اس وقت کے) رسول اور ان کے ساتھ ایمان لانے والے پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟، سنو! بے شک اللہ کی مدد قریب ہے، (البقرہ: 214)‘‘۔
اس سفرِ عزیمت میں صحابۂ کرام کی ناقابلِ تصور مثالیں آتی ہیں۔ عشقِ مصطفی ؐ کے تقاضوں پر پورا اترنے کے لیے باپ کو بیٹے، بیٹے کو باپ اور بھائی کو بھائی کے مقابل کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ سیدنا طلحہ اپنے وجود کو حفاظتِ نبوت ؐ کے لیے ڈھال بنالیتے ہیں اور ستّر سے زیادہ تلواروں، نیزوں اور تیروں کے زخم اپنے وجود پر سہہ کر بھی کوہِ استقامت بنے رہتے ہیں، ابودجانہ کی پیٹھ نیزوں سے بھر جاتی ہے لیکن اپنی جگہ سے سرِ مُو بھی حرکت نہیں کرتے۔ رسول اللہ ؐ کے پیارے چچا سیدنا حمزہؓ کی لاشِ مبارک کا مُثلہ کیا جاتا ہے اور آپ کے دل اور کلیجے کو اپنے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ابوجہل کی بیوی ہند اپنے گلے کا ہار بنا لیتی ہے، الغرض عشق بیان کرنا آسان ہے، برتنا بہت مشکل ہے۔ عشق فروشی میں بلند آہنگ نعرے لگتے ہیں، داد وتحسین ملتی ہے، لوگ رقصاں ہوتے ہیں۔ رشوت خور، اسمگلر اور ملاوٹ کرنے والے بھی نوٹ نچھاور کر کے عشق مصطفی ؐ سے سرشار ہوجاتے ہیں، دست بوسی ہوتی ہے اور نذرانے ملتے ہیں، جب کہ عشق برتنے میں جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے، اپنے ہی خون میں نہانا پڑتا ہے، لہو لہان ہونا پڑتا ہے، آنکھیں پتھرا جاتی ہیں، کلیجہ منہ کو آجاتا ہے، جگر پارہ پارہ ہوجاتا ہے، مفادات کی قربانی دینی پڑتی ہے، فارسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
بنا کردند خوش رسمے بخاک وخون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
ترجمہ: (اہلِ عشق ومحبت نے راہِ حق میں) خاک وخون میں لتھڑ جانے کی کیا ہی حسین رسم ایجاد کی ہے، اللہ ان پاک طینت عاشقانِ (باصفا) پر اپنی (بے پایاں) رحمتیں نازل فرمائے۔ یہی وہ لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں بشارتیں دیتا ہے اور ان پر انعامات ونوازشات کا دلکش منظر ان آیات میں بیان فرماتا ہے: ’’بے شک جن لوگوں نے (ایک بار) کہہ دیا: ہمارا ربّ اللہ ہے، پھر اُس پر ثابت قدم رہے، فرشتے ان پر (یہ کہتے ہوئے) نازل ہوتے ہیں: تم نہ خوف کرو اور نہ غمگین ہو اور اُس جنت کی بشارت سنو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے، ہم دنیا کی زندگی میں تمہارے مددگار ہیں اور آخرت میں بھی اور تمہارے لیے اُس (جنت) میں ہر وہ چیز (دستیاب) ہے جس کو تمہارا جی چاہے اور اُس میں ہر وہ چیز (موجود) ہے جس کو تم طلب کرو، (یہ سب) ضیافت ہے اُس بہت بخشنے والے، بے حد مہربان (رب) کی طرف سے (حم السجدہ: 30-32)‘‘۔
میں امام احمد رضا قادری سے محبت کے دعویداروں سے ببانگ دہل یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اُن کی زندگی بدعات ومنکَرات کے سَدِّباب میں گزری، ہم انہیں بجا طور پر حامیِ سنت اور ماحیِ بدعت یعنی سنتِ مصطفی ؐ کا اِحیاء اور بِدعاتِ ضالّہ کو مٹانے والا کہتے ہیں، لیکن اس شعبے میں ہمارے واعظین اور خطباء ان کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، کیوں کہ اس پر وہ دادوتحسین نہیں ملتی جو عشقِ مصطفی ؐ کے عنوان سے ملتی ہے،سو اصل مسئلہ سادہ لوح مسلمانوں کی عقیدت کو مہمیز دے کر نذرانے سمیٹنا اور مارکیٹ بنانا ہے، اُن کو میرا مشورہ ہے کہ کبھی کبھی مارکیٹ میں مندی بھی آجاتی ہے، سو کچھ وقت اس ذمے داری کو بھی پورا کیا کریں۔ علمائے حق کی سہل پسندی کے سبب ان بِدعات ومنکرات اور خرافات کو اہلسنت وجماعت سے جوڑ دیا گیا ہے، یہ بھی اپنی جگہ علمی خیانت اور زیادتی ہے۔ اس لیے میں امام اہلسنت کی تعلیمات کی جانب متوجہ کرتا رہتا ہوں۔ مخالفین اس حد تک آگے چلے گئے کہ عربی میں کتابیں لکھ کر عالَم عرب میں پھیلائیں اور اُن میں اہلسنت وجماعت کو ’’قبوری‘‘ یعنی قبر پرست کے طور پر متعارف کرایا گیا، جب کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور تمہیں کسی قوم کی عداوت اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم انصاف کا دامن چھوڑ دو، انصاف کرو (کیوں کہ) یہی تقوے کے قریب ترین (شِعار) ہے، (المائدہ: 8)‘‘۔
احمد رضا قادری لکھتے ہیں: ’’مسلمان اے مسلمان ! اے شریعتِ مصطفوی کے تابعِ فرمان! جان کہ سجدہ حضرتِ عزت جَلَّ جَلَالُہُ کے سوا کسی کے لیے نہیں، اُس کے غیر کو سجدۂ عبادت تو یقیناًاِجماعاً شرکِ مُھِین وکفرِ مُبین ہے اور سجدۂ تَحِیَّتْ (تعظیمی) حرام اور یقیناًگناہِ کبیرہ ہے، اس کے کفر ہونے میں علمائے دین کا اختلاف ہے (یعنی گناہِ کبیرہ ہونے میں اختلاف نہیں ہے)، ایک جماعتِ فقہاء سے اس کی تکفیر نقل کی گئی ہے‘‘۔ غیر اللہ کے لیے سجدۂ عبادت تو مومن کے لیے ناقابلِ تصور ہے، انہوں نے سجدۂ تعظیمی کے حرام ہونے پر قرآن وسنت کی نصوص سے استدلال کرتے ہوئے ’’اَلزُّبْدَۃُ الزَّکِیَّۃ لِتَحْرِیْمِ سُجُوْدِ التَّحِیَّۃ‘‘ کے نام سے ایک باقاعدہ رسالہ لکھا اور اس میں آپ نے فقہِ حنفی کی مسلّمہ کتبِ فتاویٰ و ائمۂ احناف کے حوالے سے لکھا: ’’عالموں اور بزرگوں کے سامنے زمین چومنا حرام ہے اور چومنے والا اور اس پر راضی ہونے والا دونوں گناہگار، کیوں کہ یہ بت پرستی کے مشابہ ہے‘‘۔ آپ مزید لکھتے ہیں: ’’زمین بوسی‘‘ حقیقۃً سجدہ نہیں ہے، کیوں کہ سجدے میں پیشانی رکھنا ضروری ہے، جب یہ اس وجہ سے حرام اور بت پرستی کے مشابہ ہوئی کہ صورتاً سجدے کے قریب ہے، تو اندازہ لگائیے کہ خود سجدہ کس درجہ سخت حرام اور بت پرستی کا مشابہِ تامّ ہوگا، اَلْعِیَاذُ بِاللّٰہِ تَعَالٰی‘‘۔
آپ مزید لکھتے ہیں: ’’مزارات کو سجدۂ تعظیمی یا اس کے سامنے زمین چومنا حرام اور حدِّ رکوع تک جھکنا ممنوع ‘‘، اولیائے کرام کے مزارات کی بات تو چھوڑیے، وہ لکھتے ہیں: ’’زیارتِ روضۂ انور سیِّدِ اَطہر ؐ کے وقت نہ دیوارِ کریم کو ہاتھ لگائے، نہ چومے، نہ اُس سے چمٹے، نہ طواف کرے، نہ زمین کو چومے کہ یہ سب بِدعاتِ قبیحہ ہیں‘‘۔
شرحِ لباب کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’رہا مزار کو سجدہ، تو وہ حرامِ قطعی ہے، زائر جاہلوں کے فعل سے دھوکا نہ کھائے، بلکہ علمائے باعمل کی پیروی کرے، مزار کو بوسا دینے میں علماء کا اختلاف ہے اور چھونا، چمٹنا اُس کی مثل، شریعت کا محتاط ترین حکم یہ ہے کہ عوام کو منع کیا جائے اور ممانعت کا سبب خلافِ ادب ہونا ہے‘‘۔ لکھتے ہیں: ’’مزار کو سجدۂ تعظیمی تو درکنار، کسی قبر کے سامنے اللہ تعالیٰ کو بھی سجدہ جائز نہیں، اگرچہ قبلے کی طرف ہو، (کیوں کہ یہ بت پرستی کے مشابہ ہے)، قبرستان میں نماز مکروہ کہ اس میں کسی نہ کسی قبر کی طرف رخ ہوگا اور قبر کی طرف نماز مکروہ ہے، البتہ قبرستان میں مسجد یا نماز کی جگہ بنی ہو تو اس میں نماز پڑھنے میں حرج نہیں ہے‘‘۔ قبر کی اونچائی کی بابت ان سے سوال ہوا تو لکھا: ’’خلافِ سنت ہے، میرے والد ماجد، میری والدۂ ماجدہ اور بھائی کی قبریں دیکھیے، ایک بالشت سے اونچی نہ ہوں گی‘‘۔ مزید لکھتے ہیں:
’’اب کمالِ ادب میں ڈوبے ہوئے، گردن جھکائے، آنکھیں نیچے کیے، لرزتے کانپتے، گناہوں کی ندامت سے پسینہ پسینہ ہوتے، حضورِ پرنور ؐ کے عفو وکرم کی امید رکھتے، حضورِ والا کی پائیں یعنی مشرق کی طرف سے مواجہۂ عالیہ میں حاضر ہو کہ حضورِ اقدس ؐ مزارِ انور میں روبقبلہ جلوہ فرماہیں، اُس سَمت سے حاضر ہو کہ حضور کی نگاہِ بے کس پناہ تمہاری طرف ہوگی اور یہ بات تمہارے لیے دونوں جہانوں میں کافی ہے۔ خبردار! جالی شریف کو بوسا دینے یا ہاتھ لگانے سے بچو کہ خلافِ ادب ہے بلکہ چار ہاتھ فاصلے سے زیادہ قریب نہ جاؤ یہ اُن کی رحمت کیا کم ہے کہ تم کو اپنے حضور بلایا، اپنے مواجہۂ اقدس میں جگہ بخشی، اُن کی نگاہِ کریم اگرچہ ہرجگہ تمہاری طرف تھی، اب خصوصیت اور اس درجہ قُرب کے ساتھ ہے، وَالْحَمْدُ لِلّٰہ۔ نہایت ادب ووقار کے ساتھ بآوازِ حزیں (غمناک) وسوزِ درد آگیں (درد سے پُر) ودلِ شرمناک وجگر چاک چاک، معتدل آواز سے نہ بلند وسخت نہ نہایت نرم وپست کہ سنت کے خلاف ہے، اگرچہ وہ تمہارے دلوں کے خیالات تک سے آگاہ ہیں جیسا کہ ابھی تصریحاتِ ائمّہ سے گزرا‘‘، پھر آپ نے آگے صلوٰۃ وسلام لکھا ہے، (فتاویٰ رضویہ)‘‘۔ دین سے محبت رکھنے والے پیر زادہ علامہ فاروق القادری کی کتاب ’’فاضل بریلوی اور امورِ بدعت‘‘ اور بھارت سے مولانا یاسین اختر مصباحی کی کتاب ’’امام احمد رضا اور ردِّ بدعات ومنکَرات‘‘ کا ضرور مطالعہ کریں۔