نوازشریف کے لیے این آر او آسان نہیں

622

اگر یہ خبر درست ہے کہ میاں نواز شریف نے نئے این آر او کے لیے چودھری نثار کی خدمات حاصل کرلیں اور چودھری نثار نے اس سلسلے میں کئی اہم ملاقاتیں بھی کرڈالی ہیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستانی قوم کے کھربوں روپے کے ساتھ پورے دو سال بھی ضائع ہوگئے۔ خبر تو یہی ہے کہ چودھری نثار راولپنڈی میں رات گئے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور شہباز شریف ان کی معاونت میں مصروف ہیں۔ ممکن ہے یہ خبر درست نہ ہو لیکن چونکہ پاکستان میں کچھ بھی ممکن ہے اس لیے اس خبر نے خدشات بڑھادیے ہیں۔ ایسا سابق صدر آصف زرداری کے ساتھ بھی ہوا ہے جب وہ پاکستان کے مرد اول اور ان کی بیگم وزیر اعظم تھیں، ایسا متحدہ قومی موومنٹ کے الطاف حسین کے سوا پوری قیادت کے لیے ہوا ہے۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی سیاسی زندگی میں واپسی بھی این آر او کی مرہون منت تھی۔ جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کے تقریباً تمام ہی کرپٹ اور جرائم پیشہ افراد کو این آر او کے ذریعے پاک صاف کیا اور ملک میں معزز بنا کر اعلیٰ مناصب عطا کردیے تھے۔ کسی کو گورنر بنایا کسی کو وزیر بنایا اور کسی کے و زیر اعظم بننے کی راہ ہموار کردی۔ بلکہ بے نظیر اور نواز شریف دونوں ہی کے لیے راہ ہموار کی تھی لیکن بے نظیر کو راستے سے ہٹا دیا گیا اور میاں صاحب بھی کچھ انتظار کے بعد وزیر اعظم بن گئے۔ فی الحال یہ کہنا تو مشکل ہے کہ میاں نواز شریف کے لیے چودھری نثار این آر او حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے یا نہیں لیکن مشرف دور کے این آر او اور آ ج کے دور میں خاصا فرق ہے۔ جنرل پرویز مشرف ق لیگ کی کمزور بنیادوں پر کھڑے تھے جبکہ ان کے سامنے ایم ایم اے اور پیپلز پارٹی کی قوتیں بھی تھیں۔ وردی کی وجہ سے بھی جنرل پرویز مشرف کی پوزیشن کمزور تھی وردی کے خلاف دباؤ بھی بہت تھا ایسے میں انہیں کسی نے مشورہ دیا کہ روایتی سیاسی طاقتوں کو واپس لے آؤ اور انہیں لڑوا کر اقتدار کو طول دو۔ لیکن ان سے زیادہ ہوشیاری کا مظاہرہ آصف زرداری کی جانب سے کیا گیا اور جو کسی نے نہیں سوچا تھا وہ آصف زرداری کر گئے یعنی ملک کی صدارت کے منصب تک پہنچ گئے۔ یہ بھی این آر او کا کمال تھا۔ اس این آر او کا ایک کمال ڈاکٹر عشرت العباد بھی تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے این آر او کا فائدہ اٹھانے والے تو آج بھی سیاست میں ہیں اور بیشتر لوگ پچھلے تمام کیسز سے بچ بھی گئے ہیں لیکن میاں نواز شریف کے لیے این آر او حاصل کرنا مشکل کام ہوگا۔ کیوں کہ وہ خود حکمران پارٹی کے رہنما ہوتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے متصادم ہیں اور یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ عدالت عظمیٰ کو فوج سمیت تمام مقتدر قوتوں کی حمایت حاصل ہے۔ اگرچہ مقدمات اور الزامات تو بے نظیر بھٹو، آصف زرداری اور نواز شریف وغیرہ پر بھی تھے اور جنرل پرویز نے ان سب کو این آر او کے تحت ملک آنے کی اجازت دے دی تھی لیکن اس وقت تک ان میں سے کوئی بھی میاں نواز شریف کی طرح سزا یافتہ نہیں تھا۔ لہٰذا چودھری نثار بھی جو ہدف لے کر چلے ہیں وہ اتنا آسان نہیں جتنا چھ ماہ قبل تھا۔ اگر میاں نوازشریف 6 ماہ قبل یہ خدمات چودھری نثار کے سپر کرتے تو صورت حال قدرے مختلف ہوتی۔ اب تو صورت حال یہ ہے کہ اگر بالفرض محال میاں صاحب کے لیے کوئی رعایت کا راستہ نکلا تو وہ صرف یہ ہوسکتا ہے کہ انہیں گرفتار نہ کیا جائے جیل میں نہ ڈالا جائے شاید کسی دوست ملک میں رہائش کی اجازت مل جائے لیکن اس کی انہیں قیمت ادا کرنی ہوگی۔ ابھی تو ابتدائی بات چیت اور خبریں سامنے آئی ہیں لیکن اس مرتبہ این آر او دینے والے بہتر پوزیشن میں ہیں اور مانگنے والوں کی پوزیشن خراب ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مسلم لیگ تاریخ میں پہلی مرتبہ اس طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوئی جس طرح پہلے ہوجایا کرتی تھی لیکن جو باتیں سامنے آئی ہیں جن غیر ضروری باتوں کی مریم نواز کو وضاحت کرنا پڑی تھی وہ کچھ نہ کچھ تو معنی رکھتی ہوں گی۔ مثال کے طور پر مائنس نواز فارمولا۔ اس پر تو مسلم لیگ بھی کسی حد تک رضا مند نظر آتی ہے۔ لیکن نواز کے بعد کون؟؟ یہ زیادہ اہم سوال ہے۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا نواز شریف اس بات پر راضی ہوں گے۔ مریم نواز اور دیگر مسلم لیگی لاکھ تردید کرتے رہیں کہ پارٹی میں بغاوت نہیں ہے لیکن اقتدار ایسی چیز ہے جس کے لیے کوئی بھائی دیکھتا ہے نہ بیٹا نہ بیوی ۔ سب کو راستے سے ہٹا کر یہی کہا جاتا ہے کہ سیاست میں سب چلتا ہے۔ اس وقت میاں صاحب کی جگہ لینے والے ممکنہ لوگوں میں پہلا نام ان کے سگے بھائی میاں شہباز شریف کا ہے۔ اس کے بعد چودھری نثار بھی امیدوار ہوسکتے ہیں۔ نامعلوم کتنے امیدوار ہوں گے جو وزارت عظمیٰ اور پارٹی قیادت کے خواہش مند ہوں گے۔ اصل معاملہ میاں نواز شریف ہی ہیں وہ تو اداروں کے خلاف مزاحمت پر کمربستہ ہیں۔ دیکھتے ہیں چودھری نثار کس حد تک این آر او حاصل کرسکتے ہیں اور میاں نوازشریف اس کو کس طرح دیکھتے ہیں باقی رہے عوام تو ان کے لیے کبھی کوئی این آر او نہیں آئے گا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چودھری نثار نے ابتدائی ملاقاتوں کے بعد کوئی پیغام پہنچایا ہے جس کے نتیجے میں مسلم لیگ ن نے مائنس نواز فارمولے کے خلاف قرار داد منظور کرلی ہے اور اعلان کیا ہے کہ مائنس نواز فارمولے کی مخالفت کی جائے گی۔ میاں نواز شریف سیاست میں طویل عرصہ گزارنے کے باوجود مفاہمت کے گر نہیں جانتے ان کے انداز میں وہی سختی اور وہی کروفر ہے۔ ان کا بیان ہے کہ جیسا میں کہہ رہا ہوں ویسے ہی کیا جائے۔ ایک اہم نکتہ میاں صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ این آر او میں مائنس کا مطلب مائنس ہی ہوتا ہے۔ بے نظیر بھٹو کے بارے میں بھی کہا گیا تھا کہ انہیں پاکستان آنے کی اجازت دی جارہی ہے لیکن انہیں وزیر اعظم نہیں بننے دیا جائے گا۔ بالآخر مائنس کردی گئیں۔ این آر او کے لیے کچھ تو ماننا پڑے گا۔