یہ پوتے کی مہربانی ہے

680

لاہور ہائی کورٹ کی رولز کمیٹی نے ماتحت عدلیہ میں دیوانی مقدمات میں موجود سقم ختم کرنے کے لیے سفارشات اور تجاویز طلب کی تھیں اور ان مرتب شدہ تجاویز اور سفارشات کو فل کورٹ کے سامنے پیش کرنے سے قبل ہائی کورٹ کے ججوں، وفاقی وزرا، صوبائی وزارت قانون، بار کونسلوں، ضلعی عدلیہ کی تجاویز اور اعتراضات دو ہفتوں کے اندر کمیٹی کے روبرو جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔ فل کورٹ میں دیوانی مقدمات کے موجودہ قواعد میں بہتری کی سفارشات پیش کی جائیں گی۔عدالتی ذرائع کے مطابق تجویز دی گئی ہے کہ کسی مقدمے کی سماعت سے پہلے مقدمہ انتظامی جج کو بھجوایا جائے گا اور جواب دعویٰ آنے تک فریقین کی موجودگی اور رضا مندی سے فیصلے کی تاریخ مقرر کرکے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی جائے گی اور فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر سات دن کے بعد عدالت فیصلہ سنائے گی۔ ایپلٹ کورٹ فریقین کو ازسرنو نوٹس جاری کرنے کی پابند نہیں ہوگی۔ ایپلٹ کورٹ ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھنے کی صورت میں تفصیلی فیصلہ اور جواز فراہم کرنے کی پابند نہیں ہوگی، البتہ ٹرائل کورٹ کا فیصلہ مسترد کرنے کی صورت میں جواز اور تفصیلی فیصلہ جاری کیا جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ مذکورہ تجاویز سے دیوانی مقدمات میں پائے جانے والے سقم کیسے دور ہوں گے، یہ نالہ تو اپنی جگہ موجود رہے گا۔ ہم ایک مدت سے نظام عدل کے ’’بڑوں‘‘ کو یہ تجویز دے رہے ہیں کہ دیوانی مقدمات کی سماعت سے قبل یہ فیصلہ ضروری ہے کہ زیر سماعت مقدمہ بے بنیاد اور بدنیتی پر تو مبنی نہیں کیوں کہ مشاہدہ اور مطالعہ گواہی دیتا ہے اور باور کراتا ہے کہ اکثر دیوانی مقدمات بدنیتی پر مبنی ہوتے ہیں ان مقدمات کا مقصد مدعا علیہ کو دیوانہ کرنے کی سازش ہوتی ہے۔ مدعا علیہ کو مالی اور ذہنی اذیت دینا ہوتا ہے، مدعی ، مدعا علیہ کو ذہنی اور مالی طور پر کنگال کرکے لطف اندوز ہوتا ہے۔ دیوانی مقدمات نسل در نسل چلتے ہیں اور چلتے رہیں گے کیوں کہ ہمارے ہاں دیوانی مقدمات میں موجود سقم دراصل نظام عدل کا سقم ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس پنجاب احکامات جاری کرکے بھول جاتے ہیں۔ اس لیے ان پر عمل درآمد کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی۔ قبل ازیں ایسے بہت سے احکامات جاری ہوئے جنہیں دیمک کی خوراک بنا دیا گیا۔ چند برس پیش تر لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا تھا کہ 2010ء تک کے مقدمات کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی جائے مگر کیا ہوا؟؟۔ 2010ء کے بعد کے مقدمات کو الماریوں میں بند کردیا گیا۔ بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی مقدمات دائر کرنے والوں کو آزاد کردیا گیا، کچھ عرصے تک یہ تماشا لگا رہا مگر 2010ء تک کے مقدمات کی پیشیاں ابھی تک پڑ رہی ہیں اور سائلین کے ساتھ غلاموں سے بدتر سلوک کیا جارہا ہے، کئی کئی ماہ کے بعد پیشی کی نوید سنائی جاتی ہے مگر شنوائی نہیں ہوتی، حالاں کہ پیشی کا بنیادی مقصد مقدمے کی کارروائی کو آگے بڑھانا ہوتا ہے مگر عدالتیں مقدمے کی کارروائی کو آگے بڑھانے کے بجائے سائلین کو مزید مشکلات میں ڈال دیتی ہیں، ان کی پریشانیوں میں اضافہ کردیتی ہیں، کبھی پیشی پڑ جاتی ہے کبھی تاریخ ملتوی کردی جاتی ہے اور کبھی لیفٹ اوور کا ہتھوڑا برسا دیا جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے یہ سوچنے کی کسی کو فرصت ہی نہیں۔ شاید عدلیہ آئینی اصلاحات ہی کو اپنی ذمے داری اور اپنا فرض سمجھتی ہے ان پر عمل درآمد سے دل چسپی اس کے فرائض کا حصہ ہی نہیں۔ دیوانی مقدمات کے سقم دور کرنے کی تجاویز اور سفارشات اس وقت تک کارگر نہیں ہوسکتیں جب تک مقدمے کی سماعت سے قبل یہ فیصلہ نہیں کیا جاتا کہ مقدمہ قابل سماعت ہے یا نہیں اور یہ مشکل اور وقت طلب مسئلہ نہیں کیوں کہ محکمہ مال اور رجسٹری آفس سے اس کی تصدیق ہوسکتی۔