تیئس سروں کا سردار 

388

پاکستان کی مقبول سیاست ریٹائرڈ جرنیلوں، ججوں حتی ٰ کہ صحافیوں کے لیے کبھی سازگار نہیں رہی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک مخصوص سانچے میں ڈھلے ہوئے اور عوام سے دور رہ کر زندگی گزارنے والے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس طرز زندگی کی وجہ سے انہیں عام آدمی کی نبض پر ہاتھ رکھنے اور ان کے دل کے تار چھیڑنے کا فن نہیں آتا۔ اس کی دوسری وجہ ان طبقات سے وابستہ افراد کی طرف سے سیاست میں روپے پیسے کے استعمال سے گریز ہے حالاں کہ آج کی سیاست میں فاتحِ عالم نسخہ یہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی جرنیل ریٹارمنٹ کے بعد ملکی سیاست میں اپنی معقول جگہ نہیں بنا سکا۔ بہت سوں نے یہ بھاری پتھر چوم کر چھوڑ دینے میں ہی عافیت جان کر گوش�ۂ گمنامی یا فقط تجزیہ نگاری کی راہ لی۔ جنرل ضیاء الحق کے ساتھی جنرل فیض علی چشتی اپنے دبدبے اور طنطنے کی بنیاد پر سیاست میں حصہ لینے کے متمنی تھے مگر وہ بھرپور سیاسی ٹیک آف کی خواہش دل میں لیے دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ جنرل حمید گل اور جنرل اسلم بیگ ریٹائرمنٹ کے بعد تک فوج کا اثاثہ سمجھے جاتے رہے مگر وہ عملی سیاست میں کوئی ہلچل پیدا کیے بغیر رہ گئے۔ جنرل اسلم بیگ تو فرینڈز کے نام سے تھنک ٹینک بنا کر تحقیق و تجزیے کی طرف مائل ہوئے جب کہ جنرل حمید گل ملکی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی خواہش میں تحریک اتحاد کے نام سے ایک پریشر گروپ کے قیام پر اکتفا کر بیٹھے اور ملک کی مقبول سیاست میں ان کے لیے جگہ نہ بن سکی۔ ان کے متعارف کرائے گئے چہرے غیر عسکری پس منظر کی وجہ سے تو مقبول ہوئے مگر وہ خود ملک میں کوئی بڑی سیاسی لہر نہ اُٹھا سکے۔ ریٹائرڈ جج اور جرنیل اگر کسی حلقے سے انتخاب جیت کر عوامی اور انتخابی سیاست میں قدم رکھنے میں کامیاب بھی ہوئے تو اس کی وجہ ان کا فوجی پس منظر نہیں بلکہ جوڑ توڑ کی مقامی سیاست میں برتر پوزیشن کا ہونا اور سیاسی کارڈز کا اچھا استعمال ہے۔
فوج بھی ایک ایسا روایت پسند ادارہ ہے جہاں کسی گارڈ فادر اور فکری راہنما اور سرپرست اعلیٰ کی کبھی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ لمحۂ موجود میں زندہ رہنے والا ادارہ ہے اور اس کا کمانڈر ہی اس کا فکری راہنما بھی ہوتا اور سرپرست اعلیٰ بھی۔ یہ خالص پروفیشنل تصور اور رویہ ہے۔ ایک فوجی کی نگاہ اپنے وردی پوش چیف سے آگے کچھ دیکھتی ہی نہیں۔ ملکی سیاست میں آندھی اور طوفان کی طرح آمد کے ایک مستقل خواہش مند جنرل پرویز مشرف بھی ہیں۔ وہ محض ریٹائرڈ جرنیل نہیں بلکہ دس سال تک بطور حکمران ملک کے سیاہ وسفید کے مالک اور مختار رہ چکے ہیں۔ یہ ملکی تاریخ کے وہ دس سال ہیں جن میں بہت سے انقلابات برپا ہوئے۔ پاکستان کے گردوپیش میں ایسی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن سے پاکستان بھی محفوظ نہیں رہ سکا اور یوں یہ ملک بری طرح حالات کی دلدل کا شکار ہو کر رہ گیا۔ یہ عرصہ خطے کے لیے بھیانک اور تلخ یاد ہے۔ چین کے اُبھار کو روکنے کے لیے امریکا پاکستان پر دباؤ ڈالے ہوئے تھا۔ پاکستان کو چین کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالنے سے روکنے کے لیے زخم زخم کر دیا گیا تھا۔ بھارت اور افغانستان کے ذریعے پاکستان کا گھیراؤ کیا جا رہا تھا۔ اس دوران پاکستان کئی طرح کی جنگوں میں اُلجھ کر رہ گیا تھا اور جنرل مشرف کے دور اقتدار میں پاکستان اس دلدل سے باہر نہیں آسکا۔ عالمی اور علاقائی سیاست میں اس تاریک دور کا ایک اہم کردار جنرل پرویز مشرف کا اقتدار بھی ہے۔ وہ ملک میں کئی مقدمات میں مطلوب ہیں۔ عدالتوں کا سامنا کرنے کے بجائے پرویز مشرف حیلوں بہانوں سے باہر وقت گزار رہے ہیں اور اب انہوں نے اپنی سربراہی میں 23جماعتی اتحاد کے قیام کا مژدہ سنایا ہے اور کہہ رہے ہیں کہ سیاست میں فعال کردار ادا کریں گے۔ ان تیئس جماعتوں میں کوئی قابل ذکر اور الیکشن جیتنے کی صلاحیت رکھنے والی جماعت اور شخصیت نہیں اور یوں تیئس سروں کی قطار ہے جو ملکی سیاست پر کسی طور انداز اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں نہیں۔
پرویز مشرف خود کو فوج کا اثاثہ سمجھ رہے ہیں یہ وہ غلط فہمی ہے جس کا شکار وہ اقتدار کے دنوں میں بھی تھے اور اس کے بعد بھی۔ وہ اپنے اس تصور کی حقیقت اسی وقت جان گئے تھے جب راولپنڈی کے ریس کورس گراونڈ میں ایک اداس سہ پہر کو انہوں نے ڈھائی فٹ کی چھڑی اپنے جانشین جنرل اشفاق پرویز کیانی کو تھما دی تھی۔ حقیقت یہ کہ اپنے ماضی کے طرز حکمرانی کے باعث وہ پاکستان کے انتہائی تلخ ماضی کا حصہ ہیں اور یوں وہ ایک اثاثہ کم اور بوجھ زیادہ ہیں۔ انہوں نے این آر اوز اور مصلحت کی خاطر مصالحت کا راستہ اختیار کرکے پاکستان کی سیاست میں ایسی روایات قائم کیں جن کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کے بعد آنے والوں جنرل اشفاق کیانی اور جنرل راحیل شریف کو بہت محنت کرنا پڑی اور اب تک یہ ڈور پوری طرح سلجھنے نہیں پائی۔ اس وقت بھی دبئی اور لندن سے ملکی سیاست میں تانک جھانک کرنے والے جنرل مشرف فوج پر اس طعنہ زنی کا جواز فراہم کر رہے ہیں کہ احتساب صرف سیاست دانوں ہی کا کیوں؟۔ مقدمات میں ملوث سیاست دان عدالتی کٹہروں میں اور مقدمات میں مطلوب ریٹائرڈ جرنیل بیرونی ملکوں کی تفریح گاہوں کی زینت کیوں؟۔ پرویز مشرف لاکھ دامن چھڑائیں اور نظریں بچائیں مگر کچھ سوالوں کے جواب ان پر قرض ہیں جو جلد یا بدیر انہیں دینا ہوں گے۔ جنرل مشرف اگر عدالتوں کا سامنا کرکے ’’کلین چٹ‘‘ ہی حاصل کرلیں تو یہی ان کا ملکی سیاست اور فوج پر احسان ہوگا۔ سردست تیئس سروں کی مشعلیں جلانے کے باوجود ان کی سیاست کا چراغ جلنے کا امکان نہیں۔ وہ پہلے ہی پانچ لاکھ فیس بکی مداحوں کے ذریعے دبنگ انٹری ڈالنے کی ناکام کوشش کر چکے ہیں اور اب تیئس سروں کی قطار سجا کر بزعم خود ان کا سردار بن کر وہ دوبارہ پرانی غلطی دہرا رہے ہیں۔