کیا اسحق ڈار کی مَت بھی ماری گئی ہے؟

684

میاں نواز شریف کے خلاف پاناما کیس شروع ہوا تو ان سے محبت کرنے والے مخلص لوگوں کا مشورہ تھا کہ میاں صاحب وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو کر وسط مدتی انتخابات کا اعلان کردیں۔ اس طرح پاناما کیس ابتدا ہی میں دم توڑ جائے گا، وہ عدالت میں رسوا ہونے سے بچ جائیں گے اور ان کا خاندانی وقار بھی برقرار رہے گا لیکن ان کے گرد موجود خوشامدیوں اور سازشی عناصر نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا اور انہیں اتنا تپایا کہ وہ آپے سے باہر ہوگئے اور سینے پر ہاتھ مار کر کہنے لگے کہ میں استعفا کیوں دوں۔ کون مائی کا لعل مجھ سے استعفا طلب کرسکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ اس زمانے میں اپوزیشن بھی ان سے استعفا طلب کررہی تھی اور ان کے سب سے بڑے حریف عمران خان بھی ان کے استعفے کے لیے بے حال ہوئے جارہے تھے۔ استعفا دینے کا مطلب بلاشبہ اپوزیشن کے آگے سرنڈر کرنا تھا لیکن اس شر میں میاں صاحب کے لیے خیر کا پہلو یہ تھا کہ ان کے خلاف اپوزیشن کے غبارے سے ہوا نکل جاتی، وہ خود عدالتی احتساب سے بچ جاتے اور ان کے خاندان کی جو بھداڑی اور اپنی تضاد بیانی اور جعلسازی کے سبب یہ لوگ جتنے رسوا ہوئے اس کی نوبت بھی نہ آتی۔ پاناما کیس عدالت عظمیٰ میں شروع ہوا تو خوشامدی اور سازشی عناصر میاں صاحب کو مسلسل پھونک دیتے رہے اور انہوں نے ’’میں استعفا کیوں دوں‘‘ کی گردان جاری رکھی، کیس چلتا رہا، خوشامدی بڑھکیں مار کر میاں صاحب کو حوصلہ دیتے رہے۔ عدالت نے عبوری فیصلہ دیتے ہوئے کیس کی مزید تفتیش کے لیے جے آئی ٹی بنادی لیکن میاں نواز شریف پھر بھی کچھ نہ سمجھ پائے وہ اپنے خاندان سمیت جے آئی ٹی میں بھی رسوا ہوئے اور بالآخر عدالت کے ہاتھوں نااہل ہو کر ایوان اقتدار سے بیک بینی دوگوش نکالے گئے۔ اب وہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی بے وقت راگنی الاپ رہے ہیں۔ لیکن عدالت نے ان کی نظرثانی کی درخواست بھی سنگین فرد جرم کے ساتھ مسترد کردی ہے۔
خیر میاں نواز شریف کی تو ان کے مشیروں اور خوشامدیوں نے مَت مار دی تھی اور وہ ابھی تک انہیں عدلیہ اور فوج سے ٹکراؤ پر اُکسا رہے ہیں۔ ان کے مقرر کردہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی ان کے تابع مہمل بنے ہوئے ہیں اور بار بار کہہ رہے ہیں کہ عدلیہ کے فیصلے کو عوام نے تسلیم نہیں کیا۔ چلیے عوام نے تسلیم نہیں کیا‘ آپ تو تسلیم کریں کہ آپ ملک میں جمہوری نظام کے پاسبان کا درجہ رکھتے ہیں۔ رہے اسحق ڈار تو ان کی مَت نہ جانے کیوں ماری گئی ہے وہ اپنے سمدھی کا عبرتناک انجام دیکھ کر بھی عقل کے ناخن لینے کو تیار نہیں اور پاناما کیس میں اپنے خلاف فیصلہ آنے کے باوجود اس بات پر مُصر ہیں کہ وہ استعفا نہیں دیں گے، عدالتی فیصلے کی روشنی میں ان کے خلاف احتساب عدالت میں ریفرنس کی سماعت ہورہی ہے ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر اثاثے بنائے ہیں۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ایک اکاؤنٹنٹ کی حیثیت سے کیا تھا لیکن اب وہ اور ان کے بیٹے اندرون و بیرون ملک اربوں کے مالک ہیں۔ یہ پیسا آخر کہاں سے آیا؟ عدالت میں ان پر فرد جرم عائد ہوچکی ہے ان کے خلاف گواہ پیش ہورہے ہیں اور وہ خود بھی آئے روز پیشیاں بھگت رہے ہیں اور اب تو وہ پیشیاں بھگتنے کے بجائے لندن کے ایک ہسپتال میں جا لیٹے ہیں۔ احتساب عدالت نے ان کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کرنے کے بجائے انہیں پیش ہونے کا حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ ان کا پاکستان میں طبی معائنہ کرایا جائے گا تا کہ معلوم ہو کہ ان کی بیماری کیا ہے۔ ایسے میں وہ وزارت کا بوجھ کیسے اُٹھا سکتے ہیں اور وزیر خزانہ کی حیثیت سے اپنی نازک ذمے داریاں کیسے ادا کرسکتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ وزارت سے چمٹے ہوئے ہیں اور مستعفی ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اسحق ڈار کو مالیاتی امور سے متعلق کئی کمیٹیوں اور فنانس کمیشن سے فارغ کردیا ہے، وہ شاید بیرون ملک بھی کسی اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی نہیں کرسکتے لیکن وزیراعظم عباسی انہیں کابینہ سے نکالنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ کہا جارہا ہے کہ اسحق ڈار مقدمات میں اُلجھنے کے سبب قوت فیصلہ کھو چکے ہیں وہ ذہنی طور پر پریشان اور کنفیوزڈ ہیں اور وزارت خزانہ کے تمام معاملات ادھورے پڑے ہیں لیکن وہ وزارت کی چھتری سر سے ہٹانے کو تیار نہیں ہیں۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ وزارت انہیں احتساب عدالت کے شکنجے سے بچالے گی لیکن ایسا نہیں ہوگا وہ تو ڈوبیں گے ہی وزارت خزانہ کو بھی لے ڈوبیں گے۔
قطع نظر اس الزام کے کہ اسحق ڈار نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر اثاثے بنائے ہیں، ان کا اصل جرم یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کو بیرونی قرضوں میں اس قدر جکڑ دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ہل بھی نہیں سکتا۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ شاہراہوں، ائرپورٹس اور سرکاری عمارتوں کو رہن رکھ دیا گیا ہے اور ان اثاثوں کو رہن سے چھڑانے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے تو قرضے لینے کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ اتنے قرضے لیے گئے کہ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی اور شرح سود اس قدر زیادہ ہے کہ سود اصل زر سے بھی بڑھ گیا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ قرضوں کی قسط ادا کرنے کے لیے بھی قرضہ لیا جارہا ہے۔ بعض اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان عملاً ڈیفالٹ کر گیا ہے کیوں کہ ڈیفالٹ (نادہندہ) ہونے کی بنیادی شرط ہی یہ ہے کہ کوئی ملک اپنے وسائل سے قرضہ ادا کرنے کے قابل نہ رہے اور قرضوں کی اقساط ادا کرنے کے لیے مزید قرضہ لینا پڑے۔ بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران قرضوں کی اقساط اور دیگر واجبات کی ادائیگی کے لیے پاکستان کو 30 ارب ڈالر درکار ہوں گے، وہ آخر کہاں سے آئیں گے؟ ظاہر ہے مزید قرضہ لیا جائے گا، مالیاتی ادارے پاکستان کو ڈھیل اسی لیے دے رہے ہیں کہ اسے ’’پوائنٹ آف نورٹرن‘‘ پر پہنچا کر اس کے ایٹمی پروگرام کو لپیٹنے کے لیے سودے بازی کی جائے اور قرضے معاف کرنے کے عوض اس کی ایٹمی استعداد سلب کرلی جائے۔ اس تمام تر صورت حال کی ذمے داری نواز شریف کی سابق حکومت اور خاص طور پر وزیر خزانہ اسحق ڈار پر عائد ہوتی ہے جن کی مَت واقعی ماری گئی تھی۔