اَعراسِ مبارکہ

582

عرس کا لفظ اس حدیثِ پاک سے ماخوذ ہے: ’’(قبر میں سوال وجواب کے مرحلے سے گزر کر جو مومن سرخرو ہوگا، اس کے بارے میں نبی ؐ کا ارشاد ہے:)، پھر اُس کی قبر کو ستّر ذِراع تک کشادہ کردیا جائے گا، قبر اس کے لیے روشن کردی جائے گی اور اس سے کہا جائے گا: سوجاؤ، وہ (نور و سرور کے اس ماحول میں) کہے گا: میں اپنے گھر والوں کے پاس جانا چاہتا ہوں تاکہ انہیں اپنا حال بتاؤں، منکَر نکیر کہیں گے: دلہن کی طرح (سکون کے ساتھ) سوجا کہ (شبِ عروسی میں) خاندان میں اس کے محبوب ترین فرد (شوہر) کے سوا کوئی اُسے نہیں جگاتا، (وہ اسی طرح پُرسکون رہے گا) یہاں تک کہ (قیامت کے دن) اللہ تعالیٰ اُسے قبر سے اٹھائے گا، (ترمذی)‘‘۔ چوں کہ اللہ کے ولی کے بارے میں حسنِ عاقبت کا ہمیں ظنِ غالب ہوتا ہے، اس لیے ان کی یاد کے لیے جو محفل منعقد کی جاتی ہے، اُسے ’’عُرس‘‘ کہتے ہیں، شبِ زفاف کو شبِ عروسی کہا جاتا ہے۔ قطعی طور پر کسی کے جنتی ہونے کے بارے میں اللہ تعالیٰ جانتا ہے یا اس کے بتانے سے اس کے رسولِ مکرم ؐ جانتے ہیں، چناں چہ رسول اللہ ؐ نے بعض صحابۂ کرام کو جنتی ہونے کی بشارتیں دیں، ان کا ذکر احادیث مبارکہ میں موجود ہے۔
ہمارے ہاں اولیائے کرام اور بزرگانِ دین کے ایامِ وصال پر اَعراس منعقد کیے جاتے ہیں، ان کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اُن کی سیرتِ طیبہ بیان کی جائے تاکہ لوگ اس کی پیروی کریں اور انہیں اپنا مُقتدیٰ اور مشعلِ راہ بنائیں۔ جو حضرات اعراس کو بدعت قرار دیتے تھے، انہیں بھی اب ان کی اہمیت کا ادراک ہوگیا ہے، چناں چہ اپنے اکابر کے ایامِ وفات کے موقع پر اخبارات وجرائد میں مضامین لکھتے ہیں، ان کی یاد میں کنونشن اور کانفرنسیں منعقد کرتے ہیں، جیسے مفتی محمود کنونشن، شیخ الہند کانفرنس، دارالعلوم دیوبند کا ڈیڑھ سو سالہ جشن، دارالعلوم کراچی کا پچاس سالہ جشن، مولانا مودودی کے صد سالہ یومِ ولادت پر ترجمان القرآن کا خاص نمبر وغیرہ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کنونشن اور کانفرنس کی اصطلاح مغرب سے آئی ہے، جب کہ عرس کی اصطلاح حدیثِ پاک سے ماخوذ ہے۔ اہلسنت بھی ان مجالس کو واجب یا سنت قرار نہیں دیتے، بلکہ مستحسن سمجھتے ہیں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے محبوب بندوں کا ذکر پسند ہے، قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: ’’اور ان کو اللہ کے دنوں کی یاد دلاؤ، (ابراہیم: 5)‘‘، مفسرین کرام نے لکھا ہے: ’’ایّام اللہ‘‘ سے مراد وہ دن ہیں، جن میں گزشتہ امتوں بالخصوص بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں نازل ہوئیں اور ربّ تبارک وتعالیٰ نے انہیں اپنی قدرت کی نشانیاں دکھائیں، جیسے مَن وسلویٰ کا نزول، پتھر سے بارہ چشموں کا پھوٹنا، سمندر کا بنی اسرائیل کے لیے پھٹنا، بادلوں کا سایہ کرنا اور دیگر آیاتِ الٰہیہ۔ لہٰذا جن ایام میں اللہ کی یاد تازہ ہوجائے، وہ سب ایام اللہ ہیں۔ حدیثِ پاک میں اولیائے کرام کایہ وصف بیان کیا گیا ہے: ’’جب ان پر نظر پڑے تو اللہ یاد آجائے، (مسند احمد)‘‘۔
تصوُّف روح وقلب کی پاکیزگی وبالیدگی سے عبارت ہے، اسی کو قرآن وحدیث میں ’’تزکیہ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (۱): ’’بے شک جس نے اپنا باطن صاف کرلیا، وہ کامیاب ہوگیا، پھر اپنے ربّ کو یاد کیا اور نماز پڑھتا رہا، (الاعلیٰ: 14-15)‘‘۔ (۲) ’’کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنی پارسائی کا دعویٰ کرتے ہیں، بلکہ اللہ ہی جس کو چاہے پاک فرماتا ہے، (النساء: 49)‘‘۔ (۳) ’’سو تم اپنی پارسائی کا دعویٰ نہ کرو، اللہ متقین کو خوب جانتا ہے، (النجم: 32)‘‘۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’اے اللہ! تو میرے نفس کو اس کا تقویٰ عطا کر اور اُسے پاک فرما، کیوں کہ تو ہی (نفوس کو) بہتر پاک فرمانے والا ہے، (صحیح مسلم)‘‘۔ الغرض تصوُّف اسی تزکیہ، عرفان اور احسان کا نام ہے اور یہ شریعت کے مقابل نہیں بلکہ تابعِ شریعت ہے، احمد رضا قادریؒ نے لکھا ہے:
’’شریعت اصل ہے اور طریقت اُس کی فرع، شریعت مَنبع ہے اور طریقت اس سے نکلا ہوا دریا، طریقت کی جدائی شریعت سے محال ودشوار ہے، شریعت ہی پر طریقت کا دَارومَدَار ہے، شریعت ہی اصل کار اور مَحَکّ ومعیار ہے، شریعت ہی وہ راہ ہے جس سے وصول اِلَی اللّٰہ ہے، اس کے سوا آدمی جو راہ چلے گا، اللہ تعالیٰ کی راہ سے دور پڑے گا، طریقت اس راہ کا روشن ٹکڑا ہے، اِس کا شریعت سے جدا ہونا محال ہے۔ طریقت میں جو کچھ منکشف ہوتا ہے، شریعتِ مُطہرہ ہی کی اِتّباع کا صدقہ ہے، جس حقیقت کو شریعت رد فرمائے، وہ حقیقت نہیں، بے دینی اور زندقہ ہے۔ آپ سے پوچھا گیا: ایک شخص شریعت کا عامل نہیں بلکہ اَحکامِ شریعت کا تارک ہے، اُس کا مُواخَذہ کیا جائے تو کہتا ہے: ’’اَحکامِ شریعت تو ’’وصول الی اللہ‘‘ کا ذریعہ ہیں اور میں تو واصل ہوچکا ہوں، یعنی منزلِ حق پر پہنچ چکا ہوں، لہٰذا میں اب اَحکام کا مُکلّف (پابند) نہیں ہوں۔ اُنہوں نے امام الصوفیہ عبدالوہاب شعرانی اور سیّدُ الطائفہ جنید بغدادیؒ ٰ کے حوالے سے بتایا: ہاں! واصل (پہنچا ہوا) تو ضرور ہے، مگر جہنم میں۔ مزید لکھتے ہیں: ’’صوفیہ کرام فرماتے ہیں: بے علم صوفی شیطان کا مسخرہ ہے، وہ جانتا ہی نہیں کہ شیطان نے اُسے اپنی راہ پر لگا رکھا ہے‘‘۔
ہمارے ہاں سال میں شاید ایک دن بھی ایسا نہ آتا ہو کہ کہیں نہ کہیں کسی بزرگ کا عرس نہ منایا جارہا ہو، لیکن بیش تر اعراسِ مبارکہ اپنے مقصد سے دور ہیں اور بعض صورتوں میں مقصد کی ضد ہیں۔ بیش تر مزارات کے سجادہ نشین اپنے بزرگوں کی تعلیمات کے برعکس نظر آئیں گے، باطن کا حال تو اللہ جانے، ظاہر بھی شریعت کے مطابق نہیں ہوتا۔ پیشہ ور واعظین، نقیب اور نعت خواں ان کی شان بیان کرنے میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتے ہیں، تعریف میں حد سے زیادہ مبالغہ کرتے ہیں، ان کا کام بس نذرانے کے عنوان سے فیس لے کر مارکیٹنگ کرنا، جوہرِ خطابت کے ذریعے لوگوں کو سحرِ عقیدت میں مبتلا کرنا اور ذہنی سرور عطا کرنا ہوتا ہے۔ نہ وہاں دینی تعلیم وتربیت کا کوئی انتظام ہوتا ہے، نہ ہی بدعات ومنکَرات اور خرافات پر روک ٹوک ہوتی ہے، بس ایک آوارگی اور بے راہ روی کا سماں ہوتا ہے۔ اور تو چھوڑیے! نہ نماز کی تلقین کی جاتی ہے اور نہ سادہ لوح لوگوں کو نماز سکھائی جاتی ہے، نہ دین کے دوسرے ضروری مسائل بتائے جاتے ہیں۔ کیوں کہ صاحبِ سجادہ کو یہ باتیں مطلوب ہی نہیں ہیں، اس لیے کہ لوگوں کے ذہنوں پر جو عقیدتِ جاہلانہ کے پردے پڑے ہوئے ہیں، اگر وہ اٹھ گئے، تو پھر لوگ صاحبِ سجادہ کو بھی شریعت کے معیار پر پرکھیں گے اور آئینۂ عقیدت ریزہ ریزہ ہوکر رہ جائے گا۔
پس لازم ہے کہ اَعراسِ مبارکہ کے مواقع پر دور دراز سے آئے ہوئے لوگوں کی دینی تربیت کا اہتمام ہو، اُن کے حلقے بنائے جائیں اور اہلِ علم انہیں نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کے مسائل سہل اور اَحسن انداز میں سکھائیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد سے آگاہ کریں۔ مزارات پر حاضری اور بزرگانِ دین کے ایصالِ ثواب کے لیے فاتحہ پڑھنے کے آداب بتائے جائیں، مزارات کے طواف سے منع کریں اور بتائیں کہ غیر اللہ کے لیے سجدۂ عبادت شرک ہے اور شریعتِ مصطفوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں مزار یا غیر اللہ کے آگے سجدۂ تعظیمی حرام ہے۔ امام احمد رضا قادریؒ سے مزارات کو بوسا دینے کی بابت سوال ہوا، تو آپ نے لکھا: ’’اس کے جواز اور عدمِ جواز کے بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں، لیکن عوام کے لیے شرعی احتیاط اسی میں ہے کہ انہیں منع کیا جائے‘‘۔ اسی طرح یہ ضروری نہیں ہے کہ بزرگانِ دین کے ایصالِ ثواب کے لیے جو کھانا یا اشیاء دی جائیں، وہ مزار پر ہی جاکر دی جائیں، آپ جہاں کہیں بھی ہوں، ان کے لیے ایصالِ ثواب کا اہتمام کرسکتے ہیں۔
امام احمد رضا قادری سے سوال ہوا: ’’ایک خاتون ہر سال گیارہویں شریف کی نیاز کرتی ہیں اور ڈیڑ ھ من چاول پکا کر غوث الاعظم کی ایصالِ ثواب کے لیے تقسیم کرتی ہیں۔
ی منیب الرحمن
فلاں جگہ ایک دینی مدرسے میں مستحق طلبہ ہیں، اگر یہ رقم اُن پر خرچ کر دی جائے توکیا گیارہویں شریف کی نیاز ہو جائے گی؟‘‘۔ آپ نے جواب دیا: ’’تم گیارہویں شریف کی نیاز کے جواز کی بات کرتے ہو، گیارہویں بھی ہو جائے گی اور چودہ سو گنا زیادہ اجر ملے گا، کیوں کہ یہ صدقہ جاریہ ہو گا‘‘۔ نوٹ: یہاں نیاز سے نذرِ شرعی مراد نہیں ہے، ایسی نذر صرف اللہ کے نام پر جائز ہے، یہاں نیاز عرفی معنی میں ہے: یعنی بزرگانِ دین کے لیے ایصالِ ثواب کرنا۔ مزار کے احترام کے لیے ایک چادر کافی ہے، مزید چادریں اسراف ہیں، علماء نے غلافِ کعبہ پر قیاس کرتے ہوئے مزار پر چادر کے جواز کی بات کی ہے اور غلافِ کعبہ ہمیشہ ایک ہی رہا ہے، یہ نہیں کہ ہر کوئی اپنی طرف سے کعبۃ اللہ کو ایک غلاف چڑھا دے۔ اس سے بہتر ہے کہ صاحبِ مزار کے ایصالِ ثواب کے لیے ضرورت مندوں کو لباس فراہم کیا جائے اور عزتِ نفس رکھنے والے غریبوں کو تلاش کر کے ان کے گھروں میں اشیائے ضرورت پہنچائی جائیں۔
علماء کو اَعراس کی ایسی تقریبات میں شرکت نہیں کرنی چاہیے، جہاں دھمال اور رقص ہو، مرد وزن کا مخلوط اجتماع ہو، مزار کے قرب وجوار میں چرس، ہیروئن اور افیون کے نشے باز لوگوں کے ٹھکانے ہوں۔ بعض مزارات پر عام طور پر ایسے لوگوں کا جم گھٹا لگا رہتا ہے، لیکن وہ بندگانِ اغراض مزار سے متصل مسجد کی باجماعت نماز میں نظر نہیں آئیں گے، اِلَّا مَاشَاءَ اللّٰہ، یہ اولیائے کرام سے عقیدت کا کیسا مظہر ہے؟۔ اسی طرح جہاں رات گیارہ بجے سے اذانِ فجر تک محافلِ نعت چل رہی ہوں، لیکن یہ خود ساختہ عشقِ رسول کے دعویدار نہ نمازِ عشاء اور نہ نمازِ فجر میں نظر آتے ہیں، یہ کیسا عشقِ رسول ہے؟۔ عشقِ رسول تو اطاعتِ رسول پر آمادہ کرتا ہے اور اس کا حصول اتباعِ رسول کے جادۂ مستقیم پر چل کر ہی ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل پیشہ ور واعظین اپنے سادہ لوح سامعین کے سامنے عقیدے اور عمل کا اس انداز سے تقابل کرتے ہیں کہ اعمالِ صالحہ بے توقیر اور بے مایا معلوم ہوتے ہیں۔ عقیدہ وایمان تو جوہر ہے، اساس ہے، منبع ہے اور اعمالِ صالحہ اس کی فرع، شاخیں اور ثمرات ہیں۔ ذراسوچیے! آپ کو شجرِ ثمردار اور سایہ دار اچھا لگے گا یا بے ثمر وبے سایہ، پس شجرِ ایمان کے اثمار اور برگ وبار اعمالِ صالحہ ہی تو ہیں، اسی لیے قرآنِ مجید میں سیکڑوں مقامات پر ایمان اور اعمالِ صالحہ کا ذکر ایک ساتھ فرمایا گیا ہے۔