مودی نیٹ ورک کو لگام دی جائے

371

پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے اسباب نہ سمجھ میں آنے والے مسئلے کی طرح پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔ اس مسئلے کوجتنا سلجھانے کی کوشش کی جائے یہ اتنا ہی پیچیدہ اور خطرناک شکل اختیار کرلیتا ہے۔ جب بھی پاک افغان حکام اور رہنماکسی کی ملاقات، مذاکرات یا کانفرنس میںآمنے سامنے ہوتے ہیں تو یک زبان اور یک خیال ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ پاکستان پر امریکی الزام ہے کہ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک کو پناہ دے رکھی ہے۔ جبکہ پاکستان اس کی تردید کرتا ہے۔ دوسری طرف افغانستان میں امریکی ، نیٹو اور بھارتی افواج اوراداروں کی موجودگی ایک حقیقت بھی ہے اور افغانستان اس سے کبھی انکار بھی نہیں کرتا۔ امریکا کی جانب سے بارہا دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانوں کی پاکستان میں موجودگی کا الزام عاید کیا گیا ہے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات کا نشانہ پاکستان بنا اور ان واقعات میں حملہ آوروں، گرفتار شدگان اور مارے جانے والوں کا سرحد پار افغانستان میں رابطہ ہونے کے ٹھوس شواہد ملے ہیں۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کے اعترافات اپنی جگہ ہیں۔ اور اب افغانستان سے دہشت گردی کا تازہ ترین واقعہ ہوا ہے جس میں پاکستانی کیپٹن اور ایک سپاہی شہیدہوگئے جبکہ جوابی کارروائی میں دس دہشت گر د مارے گئے۔ یہ حملہ باجوڑ میں پاک افغان سرحد کے قریب واقع پاکستانی چیک پوسٹ پر کیا گیا جس پر پاک فوج کے ترجمان نے افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ افغانستان اور پاکستان میں جس قسم کے دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کا الزام عاید کیا جاتا ہے وہ دو بہت مختلف قسم کی چیزیں ہیں۔ جس حقانی نیٹ ورک کا امریکا ذکر کرتا ہے اور بھارت اور افغانستان اس کی لے میں لے ملا کر قوالی گاتے ہیں وہ حقانی نیٹ ورک بنیادی طور پر افغانستان کی پیداوار ہے۔ اس کے اصل ٹھکانے اور مضبوط پناہ گاہیں بھی افغانستان میں ہیں۔ پاکستان میں اس نیٹ ورک کی آمدو رفت کی اطلاعات ضرور ہیں لیکن آج تک امریکا ان میں کسی کے ٹھکانے کی نشاندہی نہیں کرسکا۔ پاکستانی حکام نے بارہا امریکا کو پیش کش کی ہے کہ ان ٹھکانوں کی نشاندہی کرے بلکہ یہ تک کہا ہے کہ امریکا نشاندہی کرے ہم بمباری کریں گے۔ لیکن ساری دنیا کی خبر رکھنے والا امریکا یہاں معصوم بن جاتا ہے گویا اسے پتا ہی نہیں کہ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں کہاں کہاں ہیں۔ جبکہ افغانستان میں امریکی اور بھارتی افواج اور خفیہ اداروں کی بھرمار اور ان کے ٹھکانوں کا سب کو علم ہے لیکن پھر بھی کوئی انہیں دہشت گرد نہیں کہتا۔ جب ایسے واقعات بار بار ہو جائیں تو تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق کوئی نہ کوئی بات کھل کر کہہ دی جاتی ہے۔ اب امریکا کو نہیں کہا جاسکتا تو بھارت کو سب کچھ کہا جاسکتا ہے لہٰذا پاک فوج کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے سربراہ جنرل زبیر محمود حیات نے افغانستان سے ہونے والی کارروائیوں کی سخت گرفت کی ہے اور کہا ہے کہ بھارت آگ سے نہ کھیلے۔ جو روایتی جنگ چل رہی ہے وہ کسی بھی وقت بڑی جنگ یا ایٹمی جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ جنرل زبیر نے ایک جانب بہت واضح الفاظ میں بھارت کو دھمکی دی ہے بلکہ دوسرے الفاظ میں امریکا اور عالمی قوتوں کو بھی پیغام دیا ہے کہ اگر افغانستان کے راستے بھارت پاکستان میں مداخلت جاری رکھے گا تو خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ بلکہ ایٹمی جنگ بھی چھڑ سکتی ہے۔ جنرل زبیر نے بہت زور دے کر کہا ہے کہ بھارت سے تعلقات کشمیر کے راستے سے گزرتے ہیں۔ یہ بات امریکا، بھارت اور ساری دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی، جنگیں، جھڑپیں، سرحدی خلاف ورزیاں وغیرہ سب کشمیر کی وجہ سے ہیں اور کشمیرپر بات نہ کی جائے بلکہ تجارت، وفود کے تبادلے ، تعلقات اور دوستی کے فروغ اور کرکٹ وغیرہ پر بحث کی جائے تو کوئی کام ٹھوس اور دیرپا نہیں ہوسکتا۔ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی رہے گی۔ بھارت نے البتہ بڑی چالاکی سے معاملے کو پاک افغان تنازع کا رخ دے رکھا ہے۔ یہ مسئلہ پاک افغان نہیں ہے بلکہ پاک بھارت ہی ہے لیکن بھارت افغان سرزمین پر بیٹھ کر پاکستان کے خلاف ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسندوں کو استعمال کررہا ہے۔ ممکن ہے افغانستان کی حکومت میں کچھ عناصر کو یہ سازش بھلی لگتی ہو۔ لیکن افغان قیادت کو یہ سازش سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان پر حملے کیے جائیں گے تو بدنامی افغانستان کا مقدر ہوگی۔ یہ نکتہ بھی کوئی ڈھکا چھپا یا پیچیدہ نہیں کہ بھارت کو سی پیک سے تکلیف ہے۔ لیکن جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ کشمیر کے تنازع کے سبب ہے اور اب تو بھارت کے اصل دہشت گرد نیٹ ورک کا انکشاف بلکہ اعتراف بھی ہوچکا ہے اور وہ مودی نیٹ ورک ہے۔ نریندر مودی گجرات کا قسائی مشہور ہے اور بنگلا دیش بنانے یا مشرقی پاکستان الگ کرنے کے اپنے کارنامے کا برملا اعتراف بھی کرچکا ہے۔ گزشتہ برسوں میں جنگ بندی لائن کی 12 سے زاید خلاف ورزیاں بھی اس مودی نیٹ ورک کی کارستانی ہیں۔ جن میں 13سو فوجی اور شہری شہید ہوچکے ہیں۔ پاکستان کو تو یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ امریکا اور افغانستان مودی نیٹ ورک کو لگام دیں۔