بدعنوانی کی دیمک

448

جب بیماریاں پرانی ہو جائیں تو چھوٹے زخم ناسور اور سرطان بن جاتے ہیں پھر جسم کا ہر حصہ ہر عضو بیمار ہو جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح پاکستان کے رگ و پے میں بدعنوانی نے جڑ بنا رکھی ہے۔ ابھی ایک معاملہ فیصل نہیں ہوتا کہ دوسرا سامنے آجاتا ہے۔ کسی کے فیصلے پر عملدرآمد میں رکاوٹیں ہوتی ہیں بلکہ مجرم ہی اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیتے ہیں اور کچھ عرصے بعد بڑے سے بڑا مجرم معصوم بنا گھوم رہا ہوتا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اب بدعنوانی کے تقریباً تمام واقعات حکمرانوں کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں۔ پورا شریف خاندان بدعنوانی کے الزامات اور مقدمات کی زد میں ہے، ہر سرکاری محکمہ بدعنوانی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا خانساماں ان کے نام پر یا ان کے لیے جعلی خطوط پر بھرتیاں کرتا رہاہے۔ خود نگران یا عبوری وزیر اعظم پہلے ہی ایل این جی اور اپنی فضائی کمپنی کے معاملے میں متنازع تھے اب ان کے خانساماں کے کارنامے سامنے آرہے ہیں ۔ یہ حکمران اپنے خانساماں، مالی، ڈرائیور اور منیجر وغیرہ کو اسی کام کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ کمزور لوگ ہوتے ہیں دولت سمیٹ کر فرار بھی نہیں ہوسکتے اور پکڑے جانے کا معاملہ ہو تو انہیں پیش کردیا جاتا ہے بعد میں ضمانتیں کرا دی جاتی ہیں اور کچھ انعام بھی دے دیا جاتا ہے۔ لیکن صورت حال بہت خراب ہے صرف ایک ہفتے کے اخبارات سامنے رکھیں تو حکومت کے ہر شعبے میں بدعنوانی اور لوٹ مار کی خبریں ہیں ۔ ایک خبر ہے کہ گدوپاور منصوبے میں ایک ارب 93کروڑ کی بدعنوانی، پی آئی اے کے بارے میں خبر ہے کہ اس کی پریمیئر سروس سے ایک ارب 20کروڑ کا نقصان خزانے کو پہنچایاگیا ہے۔ مسلم لیگ کے اہم وزیر خواجہ سعد رفیق پر الزام ہے کہ انہوں نے ریلویز کو خسارے میں ظاہر کر کے حکومت سے 11ارب روپے حاصل کر کے فنڈ قائم کرلیا۔ اس کی تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم ہے۔ سرکاری محکمے تو الگ رہے زرداری دور میں آب زمزم کے نام پر عازمین حج و عمرہ کو خوب لوٹا گیا۔ ایسی کمپنیوں کو ٹھیکے دے دیے گئے جن کے پاس انجینئر ہیں نہ ورکشاپ، سب ہوا میں ہے۔ یہاں تک کہ زکوٰۃ کمیٹیوں کے چیئرمینوں کے تقرر میں گھپلے ہوئے ہیں تاکہ زکوٰۃ کی تقسیم میں خوردبرد کی جاسکے۔ بدعنوانی کا ناسور اس حد تک پھیل چکا ہے کہ اندرون سندھ جہاں اسکول نہیں ، یونیفارم نہیں، کتابیں نہیں، وہاں درسی کتب ردی میں فروخت کردی گئیں۔ اداروں کا ذکر کیا جائے تو پی آئی اے، پاکستان اسٹیل، ریلویز، پی ٹی سی ایل وغیرہ سرفہرست ہیں پھر کے الیکٹرک کو لوٹ مار کے لیے کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے جس طرح عالمی سطح پر پیٹرولیم قیمتوں میں کمی کے باوجود پاکستان میں اضافی قیمت وصول کی جاتی ہے، اسی طرح کے الیکٹرک کو ٹیرف میں اضافے کی اجازت دی جاتی ہے۔ بدعنوانی تو اس میں بھی ہے۔ یہ تو محض چند اداروں کا ذکر ہے ورنہ یہ ناسور بالکل اسی طرح پھیل چکا ہے جس طرح بظاہر چمکتی ہوئی لکڑی کے اندر دیمک ہوتی ہے۔ ایک جگہ سے کھرچ کر صاف کریں تو اندر تک کھرچتے رہ جائیں صرف دیمک نکلے گی۔ ابھی نواز شریف خاندان سے بدعنوانی کی دیمک کو کھرچنا شروع کیا گیا ہے آگے چل کر جانے کہاں تک جائے گی اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔ اس مسئلے کا حل صرف صاف ستھری اور بدعنوانی سے پاک قیادت ہے۔ لیکن یہ قیادت کہاں سے آئے گی ؟ قیادت موجود ہے لیکن عوام کی اکثریت کی نظر کسی اور چمک سے خیرہ ہے۔ المیہ ہے کہ کرپشن میں وہ طبقات ملوث ہیں جن کے پیٹ اور تجوریاں بھری ہوئی ہیں۔ وہ جو مجبوراً رشوت لیتے ہیں یا کرپشن میں ملوث ہیں ان کے پاس تو اپنی غربت اور ضرورت کا جواز بھی ہے گو کہ گناہ تو یہ بھی ہے کہ راشی اور مرتشی دونوں ہی کے لیے جہنم کی وعید آئی ہے۔ تاہم یہ جو بڑے بڑے لوگ بلا ضرورت کرپشن کرتے ہیں ان کے بارے ہی میں کہا گیا ہے کہ ان کی ہوس کاپیٹ تو قبر کی مٹی ہی بھرے گی۔ ایسے لوگوں کو ذرا بھی احساس نہیں کہ ان کا سارا مال متاع دنیا ہی میں رہ جائے گا جو دوسروں کے کام آئے گا۔ ان کے ساتھ تو صرف ان کے اعمال ہی جائیں گے۔ یہ حقیقت سب کے علم میں ہے لیکن کوئی سبق لینے پر تیار نہیں۔ یہ زرداری، یہ شریف خاندان اور اہل اقتدار اربوں روپے کے مالک ہوتے ہوئے بھی بدعنوانی سے تائب ہوتے نظر نہیں آتے۔ دور حاضر کے سب سے بڑے لٹیرے ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھاتے ہیں اور اپنے گریبان میں جھانکنے سے گریز کرتے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق کا اصرار ہے کہ لوٹ کا مال واپس لائے بغیر احتساب ادھورا رہے گا۔ بات تو صحیح ہے لیکن لٹیروں نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی لوٹ کا مال ملک کے باہر رکھا ہے، اسے کون واپس لائے گا۔ عدالتیں جائداد ضبط کرنے کے احکامات دے رہی ہیں لیکن ملک کے اندر تو شاید ایک فیصد جائداد بھی نہ ہو۔ اب تک وزارت خزانہ پرمتمکن اسحاق ڈار کا سب کچھ تو باہر ہے، جائداد بھی اور اہل خانہ بھی۔ وہ بھلا کیوں واپس آنے لگے۔ شاید دو چار بینک کھاتے ہاتھ لگ جائیں تو لگ جائیں، حسن اور حسین نواز کا بھی سب کچھ باہر ہی ہے۔ اب کسی کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہوں یا کسی کو اشتہاری قرار دیا جائے، ان کی صحت پر کیا اثر پڑے گا۔ سراج الحق کہتے ہیں کہ نیب کی فائلوں میں کرپشن کے 150میگا اسکینڈل دبے ہوئے ہیں اور قوم ان کے کھلنے کی منتظر ہے۔ قوم کا انتظار شاید ہی ختم ہو۔ آئندہ بھی جو حکومت آئے گی امکان یہی ہے کہ لٹیروں کے درمیان ہی رہے گی۔ ایک کی جگہ کوئی دوسرا آجائے گا۔ حالات بدلنے کا انحصار بڑی حد تک عوام پر ہے لیکن عوام خود تقسیم کا شکار ہیں، کوئی کسی کے ساتھ اور کوئی کسی کے ساتھ۔ اور کرپشن کی دیمک اندر ہی اندر معیشت اور معاشرت کو کھوکھلا کررہی ہے۔ بیرونی قرضے ریکارڈ سطح پر پہنچ چکے ہیں اور وقت کے نیرو بانسری بجا رہے ہیں۔