ٹھس پٹاخہ

426

ہمیں سمجھ میں نہیں آتا متحدہ قومی مومنٹ پاکستان اور پاک سرزمین کے انجینئرڈ ملاپ سے لوگوں کو کیا تکلیف تھی۔ ہم اہل مشرق میں ملاپ انجیبئرڈ ہی ہوتا ہے۔ بزرگ ہی معاملات طے کرواتے ہیں۔ کسی زمانے میں نواب زادہ نصراللہ خان ایسے اتحادوں کے ماہر تسلیم کیے جاتے تھے۔ اس حوالے سے ان کا نام آج بھی عزت سے لیا جاتا ہے۔ اب یہی کام ایجنسیاں کر رہی ہیں تو انہیں برا بھلا کہا جارہا ہے۔ ہم آخر تسلیم کیوں نہیں کرلیتے سیاست میں ایجنسیوں کا کردار لازمی ہے۔
حسن اک دل ربا حکومت ہے
عشق اک قدرتی غلامی ہے
ہم لوگ بھی عجیب ہیں ایک طرف کہتے ہیں ملک سے محبت ختم ہورہی ہے۔ ٹی وی چینلز محبت کے گیت طوائفوں سے گوا کر محبت کو فروغ دیتے ہیں تو اعتراض کرتے ہیں۔ متحدہ اور پی ایس پی کے اتحاد یا انضمام میں ایجنسیوں کی جو درگت بنی ہے اس پر ہمیں اخبارات میں بہت عرصے پہلے شائع ہونے والی ایک خبر یاد آگئی۔ خبر یوں تھی ’’پولیس کی ایک گشتی وین سڑک پر جارہی تھی کہ اچانک اس کے سامنے ایک گدھا آگیا جس کو بچانے کی کوشش میں پولیس وین قلابازی کھاتی ہوئی دور جاگری۔ وین میں سوار ایک پولیس کانسٹیبل زخمی ہوگیا جب کہ گاڑی چکنا چور ہوگئی۔‘‘ جس طرح سے مصطفی کمال ’’بھائی‘‘ اور فاروق ستار ’’بھائی‘‘ نے ایجنسیوں کو ایکسپوز کیا ہے لگتا ہے اتحاد کے ذریعے ایجنسیوں نے گدھوں ہی کو بچانے کی کوشش کی تھی۔ ورنہ اس طرح سرعام کون ایجنسیوں کا نام لیتا ہے۔
ایسے چھپنے سے نہ چھپنا ہی تھا تیرا بہتر
تو ہے پردے میں مگر ذکر ہے گھر گھر تیرا
ایک انگریزی اخبار کی خبر سے ایجنسیوں کا کردار گھر گھر زیر بحث آیا۔ خبر سے صحیح طرح لطف اندوز ہونے کے لیے پہلے حبیب جالب مرحوم کا یہ شعر ذہن میں تازہ کرلیجیے
قصر شاہی سے یہ حکم صادر ہوا
لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو
شعر پڑھ لیا، اب خبر ملاحظہ کیجیے ’’فاروق ستار کو منگل کی رات کراچی کے ایک سیف ہاؤس میں بلایا گیا اور کہا گیا کہ وہ پاک سرزمین پارٹی کے ساتھ مل جائیں ورنہ نہ صرف انہیں گرفتار کرلیا جائے گا (ایک مرتبہ پھر شعر پڑھ لیجیے) بلکہ متحدہ قومی مومنٹ پاکستان پر پابندی بھی لگادی جائے گی۔‘‘
نہ جانے ماضی کے ان قاتلوں کے اتحاد کی ناکامی پر اہل کراچی کو پرسہ دیا جائے یا خوشی کا اظہار کیا جائے۔ کیا فاروق ستار اور مصطفی کمال کو متحدہ قومی مومنٹ کی قتل وغارت، جلاؤ گھیراؤ، ٹارگٹ کلنگ، بھتا خوری، بوری بند لاشوں، دہشت گردی اور کراچی کو یرغمال بنانے کی وارداتوں سے الگ کیا جاسکتا ہے۔ نواز شریف کے جرائم تو ان کے مقابل کچھ بھی نہیں۔ پھر یہ کیا تماشا ہے کہ نواز شریف پر مقدمے بنائے جارہے ہیں، سزا دی جارہی ہے اور ایم کیو ایم کے قاتل آزاد پھر رہے ہیں، سیاست کررہے ہیں۔
مجھ کو قدروں کے بدلنے سے یہ ہوگا فائدہ
میرے جتنے عیب ہیں سارے ہنر ہوجائیں گے
اس تقابل سے یہ گمان نہ کیا جائے ہمیں نواز شریف سے ہمدردی ہے۔ ہمیں نہ چوروں سے ہمدردی ہے اور نہ قاتلوں سے۔ ویسے فاروق ستار کی عزاداری اور استعفا واپس لینے کا جس طرح الطاف حسین ’’صاحب‘‘ سے موازنہ کیا جارہا ہے وہ دلچسپ ہے۔ فاروق ستار کے کیسہ میں وہ سب کچھ کہاں جو الطاف بھائی کے پاس تھا۔ تقریر کے دوران جھومنا،گانے گانا، رابطہ کمیٹی کو معطل کرنا، استعفا دینا، پھر استعفا واپس لے لینا، نشے میں دھت ہوکرچیخ پکار کرنا۔ صاف لگتا ہے ابھی فاروق ستا ر کو وقت لگے گا۔ فاروق ستار نے جس طرح اماں کے کردار کو سیاست میں متعارف کرایا ہے البتہ اس میں ندرت اور نیا پن ہے۔ کیا زمانہ آلگا ہے ایک وقت تھا جب اماں تحریک خلافت کا استعارہ تھی اور آج یوٹرن کا۔
اتحاد اور انضمام کے اس ’’ٹھس پٹاخہ‘‘ سے بہرحال ایک بات عیاں ہے فاروق ستار آج بھی ایم کیو ایم لندن کا حصہ ہیں۔ خونیں عصبیت کی بنیاد پر سیاست کرنا ہی متحدہ کی شناخت ہے جس سے وہ دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔ کئی دہائیوں تک الطاف حسین کی پر تشدد سیاست ایک عذاب کی طرح اہل کراچی پر مسلط رہی۔ آج بھی الطاف حسین کراچی کی سیاست میں زندہ اور موثر ہے۔ بظاہر کراچی کی سیاست میں الطاف حسین کی متعفن لاش دفنا دی گئی ہے۔ کوئی الطاف حسین کا نام لینے والا نہیں لیکن اس نے جس سیاست کی بنیاد رکھی تھی اس کا ایجنڈا آج بھی زندہ ہے۔ فاروق ستار نے کسی بھی مرحلے پر الطاف حسین کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ عصبیت ہی کی سیاست میں اپنی بقا دیکھتے ہیں۔ لفظوں کے ادلے بدلے میں بہروپ اتر جاتے ہیں۔
اس سارے ہنگامے کا روشن پہلو یہ ہے کہ عوام کو معلوم ہوگیا کہ عوام کے اپنی مرضی کے نمائندے منتخب کرنے کے حق کو حکمران اشرافیہ کس طرح اپنی مرضی کا رنگ دیتی ہے۔ عوام سمجھتے ہیں وہ اپنی مرضی کا نمائندہ چن رہے ہیں لیکن دراصل وہ اس کو ووٹ دے رہے ہوتے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ نے ان کے لیے پسند کیا ہے۔ جس کو اسٹیبلشمنٹ سامنے لائی ہے۔ حکمران اشرافیہ الیکشن سے پہلے اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ عوام کے سامنے تمام چوائس ان کی منتخب کردہ ہوں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان نمائندوں نے اسمبلیوں میں جاکر قانون سازی کرنی ہے، حکومت بنانی ہے تو اسمبلیوں میں ایسے لوگوں کو بھیجا جائے جو ان کی مرضی سے ہٹ کر نہ قانون سازی کرسکیں اور حکومت میں آنے کے بعد نہ ایسے اقدام کرسکیں جو ان کی پالیسیوں اور ایجنڈے کے برعکس ہوں۔
اس نظام میں سیاسی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ ان کے لیے حکمران اشرافیہ کی تائید کے بغیر الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا اور پھر حکومت بنانا ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہوتا ہے۔ یہ آشیرباد اگر حاصل نہ ہو تو حکومت ہوتے ہوئے بھی وزیرداخلہ احسن اقبال احتساب عدالت کا بند دروازہ کھلوا کر اندر داخل نہیں ہوسکتے۔ معمولی رینجرز اہلکار جو حالاں کہ وزیرداخلہ کے ماتحت ہوتے ہیں ان کی اوقات دوکوڑی کی کردیتے ہیں۔ اس لیے سیاسی جماعتوں میں پیامن بھانے کے لیے ایک دوڑ جاری رہتی ہے۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے۔