میاں صاحب کو سزا کون دلوا رہا ہے ؟

289

نا اہل قرار دیے گئے میاں نواز شریف عدالت عظمیٰ پر الزام تراشی سے باز نہیں آئے۔ اب کہتے ہیں کہ سزا دی نہیں دلوائی جارہی ہے، احتساب کہیں اور سے کنٹرول ہور ہا ہے۔ تھوڑی سی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ وضاحت بھی کردیتے کہ احتساب کہاں سے کنٹرول ہو رہا ہے اور عدلیہ کے سوا کون ہے جو انہیں سزا دلوا رہا ہے۔ گو کہ اس وضاحت کی ضرورت نہیں کہ نواز شریف کے نشانے پر عدلیہ کے علاوہ اور کون ہے۔ ان کے چھوٹے بھائی سمیت کئی خیر خواہ انہیں مشورہ دے چکے ہیں کہ عدلیہ اور فوج سے محاذ آرائی نہ کریں ، نقصان ہوگا۔ لیکن میاں نواز شریف نے ایسے تمام مشورے مسترد کر کے صاف کہہ دیا ہے کہ وہی ہوگا جو میں کہوں گا۔ شاید اسی کو اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنا کہتے ہیں بلکہ میاں صاحب تو کلہاڑی پر پیر مارے جارہے ہیں۔ انہوں نے اپنے طور پر مزاحمت کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں طیارہ ہائی جیک کرنے کے احمقانہ الزام کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہر الزام مجھ ہی پر دھر دیا جاتا ہے۔ گزشتہ بدھ کو عدالت کے باہر ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاناما مقدمے پر نظر ثانی کی درخواست پر جو فیصلہ دیا گیا ہے وہ احتساب عدالت کے لیے پیغام ہے کہ مجھے سزا دی جائے۔ تو جناب، نظر ثانی کی درخواست لے کر ہی کیوں گئے تھے؟ لیکن کیا یہ عدالت عظمیٰ پر ایک اور الزام نہیں ہے؟ انہوں نے شکوہ کیا ہے کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہاہے۔ عجیب بات ہے کہ پیپلز پارٹی والے بھی یہی کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ کچھ اور معاملہ ہے اور نواز کے ساتھ کچھ اور۔ ن لیگ والے عمران خان اور تحریک انصاف پر چلنے والے مقدمات کا حوالہ دے کر دوہائی دیتے ہیں۔ اور عدالت عظمیٰ کہتی ہے ہم بہت برداشت کررہے ہیں۔ نواز شریف یہ سمجھنے پر تیار نہیں کہ وہ جسے مزاحمت سمجھ رہے ہیں وہ بندگلی کا سفر ہے۔