بلوچستان میں ایک بار پھر خونیں کھیل کھیلا گیا۔ تربت کے غیر آباد علاقے میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے 15 افراد کو بے دردی سے ہلاک کردیاگیا۔ اطلاعات کے مطابق انسانی اسمگلروں نے پنجاب کے مختلف علاقوں کے افراد کو ایران کے راستے یورپ بھیجنے کا جھانسہ دے کر جمع کیا اور پھر علیحدگی پسند دہشت گردوں کے حوالے کردیا جنہوں نے ان سب کو ہلاک کرکے گروک کی ویران پہاڑی پر پھینک دیا۔ اس غارت گری کے دو مقاصد ہوسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ خوف و دہشت پھیلاکر یہ ثابت کرنا کہ علیحدگی پسند پوری طرح فعال ہیں، کسی کی کمر نہیں ٹوٹی۔ دوسرا مقصد لوٹ مار ہے۔ جن انسانی اسمگلروں نے ان مظلوموں کو جھانسہ دیا تھا انہوں نے ان سے رقوم بھی لی ہوں گی۔ چنانچہ ان کو قتل کرواکر پیسے ہڑپ کرلیے اور ممکن ہے کہ قاتلوں سے بھی رقم وصول کی ہو۔بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ لوگ انسانی اسمگلروں کے جھانسے میں کیوں آجاتے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ غربت اور مفلسی ایسے خواب دکھاتی ہے کہ ملک سے باہر نکل کر شاید ہن برسنے لگے اور دلدر دور ہوجائیں لیکن اس کے لیے اپنی جان کو داؤ پر لگانا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ ایسے لوگ یہ نہیں سوچتے کہ ملک میں روکھی سوکھی تو مل ہی جاتی ہے۔ اب یہ 15 افراد جو قتل کردیے گئے ان کے گھر والوں پر کیا گزری ہوگی۔ وہ اپنے گھروں کے کفیل بھی ہوں گے لیکن اب وہ بے آسرا ہوگئے۔ عورتیں بیوہ، بچے یتیم اور بوڑھے والدین کے بڑھاپے کی لاٹھی ٹوٹ گئی اور صرف لاشیں ملیں۔ ایسے معاملات میں عموماً یہ ہوتا ہے کہ دھوکے بازوں کی طلب پوری کرنے کے لیے ماں یا بیوی کے زیور بیچ دیے جاتے ہیں اور جو کچھ بھی جمع پونجی ہو، داؤ پر لگادی جاتی ہے۔ دھوکے اور فریب کی ایسی کئی کہانیاں عام ہیں پھر بھی لوگ سبق نہیں سیکھتے۔ حکومتیں اور ان کی ایجنسیاں بھی انسانی اسمگلروں کا قلع قمع کرنے میں ناکام رہی ہیں اور ان کا عذر یہ ہے کہ کوئی رپورٹ ہی نہیں کرتا۔ چنانچہ ان انسان دشمنوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پاکستان سے باہر کہیں گوشۂ عافیت نہیں ہے۔ اس وقت تو متعدد ممالک سے غیر ملکیوں بالخصوص پاکستانیوں کو نکالا جارہاہے۔ سعودی عرب تک میں غیر ملکیوں پر شکنجہ تنگ کردیاگیا ہے اور پاکستانی واپس آنے پر مجبور ہیں۔ یورپ بھی غیر ملکیوں کے لیے چشم براہ نہیں ہے اس خونیں واردات کے علاوہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایس پی انوسٹی گیشن محمد الیاس اپنے اہل خانہ کے ساتھ پولیس لائن جارہے تھے کہ مسلح افراد نے گاڑی پر اندھادھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ایس پی، ان کی اہلیہ، بیٹا اور پوتا شہید اور پوتی زخمی ہوگئی۔ حملہ آور فرار ہوگئے معمول کے مطابق اس بار بھی حکومت بلوچستان نے دعوے کیے ہیں کہ قاتلوں کو کسی صور معاف نہیں کیا جاسکتا۔ بلوچستان کے ان واقعات کو بھی غیر ملکی ایجنسیوں کی شرارت قرار دیا جارہاہے ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن حکومتیں کیا کررہی ہیں، بہت فعال ایجنسیاں کہاں سوئی ہوئی ہیں۔ پولیس افسر اور اس کے خاندان پر حملہ دشمنی کا شاخسانہ بھی ہوسکتا ہے اور علیحدگی پسند تنظیم کی حرکت بھی۔ بلوچستان میں بد امنی کا تعلق سی پیک سے بھی ہوسکتا ہے تاکہ یہ ظاہر کیا جائے کہ جب صوبے میں امن ہی مفقود ہے تو یہ منصوبہ کیسے کامیاب ہوگا۔