امریکی اسلام دشمنی کا ایک اور ثبوت

476

امریکا کو پاکستان کا دوست سمجھنے والوں یا اس کی دلیل دینے والوں کے لیے امریکا نے ایک اور ثبوت فراہم کردیا ہے کہ وہ پاکستان ہی نہیں مسلمانوں اور اسلام کا دشمن ہے۔ تازہ ثبوت جنیوا اجلاس میں دیا گیا ہے جہاں دنیا بھر کے مسائل چھوڑ کر پاکستان سے ناموس رسالت قانون ختم کرنے کا مطالبہ کردیا گیا۔ امریکی نمائندے جیزبریٹسن اسٹریٹ نے تحکمانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ناموس رسالت کا قانون اور سزائیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔ اس قانون کو جتنی جلد منسوخ کیا جاسکتا ہے کردیا جائے اور اس کی جگہ دوسرا قانون بنایا جائے۔ امریکیوں کو اس کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے لیے قوانین کی بھی فکر ہے اور سزائے موت کے قوانین کی منسوخی کی خواہش کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔ آخر امریکا کو پاکستان میں ناموس رسالت قانون پر کیا تکلیف ہے۔ اسے اقلیتوں کے حقوق کی بھی فکر ہے لیکن اکثریت کے حقوق کا خیال نہیں۔ خیر یہ تو امریکا کے مطالبے ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کو کیا ہوگیا ہے وہ تو امریکا کے اشارے ہی پر اسلامی قوانین پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ امریکی مطالبہ تو اب سامنے آیا ہے۔ ناموس رسالت قانون میں ترمیم تو پہلے ہی کی جاچکی تھی۔ سود کے حق میں مسلم لیگ کی عدالت میں درخواست پہلے ہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے لیڈر اسلامی سزاؤں کو وحشیانہ قرار دیتے رہے ہیں۔ اقلیتوں کے حقوق کی فکر کرنے والے امریکا نے اپنے ملک میں بھی اور ساری دنیا میں اکثریت کے حقوق سلب کررکھے ہیں۔ ایک دفعہ امریکی مطالبہ مان کر کوئی تبدیلی کی گئی تو امت مسلمہ کے مرکز والا حال ہوجائے گا جس نے برسہا برس اسلامی قوانین کو سختی سے نافذ کر رکھا تھا لیکن جوں ہی خواتین کی ڈرائیونگ اور مخلوط اجتماعات کے راستے کھولے تباہی کا راستہ کھولا اور بری طرح گرداب میں ہے۔ پاکستان نے بھی جس روز اپنے معاشرے کو سرکاری طور پر ان ’’روشن خیال‘‘ قوانین کے لیے کھول دیا اس دن تباہی کی رفتار تیز ہوجائے گی۔ ابھی تو نیم دروں نیم بروں کے مصداق ڈرتے ڈرتے ہمارے حکمران الٹے سیدھے بیانات دیتے ہیں۔ کہتے ہیں الحمدللہ ہم بھی مسلمان ہیں، لیکن ساتھ ہی کہتے ہیں نعوذباللہ قادیانی بھی مسلمان ہیں۔ ایسے وزیر کو سر پر چڑھا کر رکھا جاتا ہے۔ جنرل پرویز نصاب سے جہاد کے اسباق نکال گئے۔ زرداری نے امہات الونین کے اسباق نصاب سے نکالے، مسلم لیگ نے تحریک پاکستان کے اسباق نکال دیے لیکن ساتھ ساتھ قائد اعظم کا پاکستان بھی چاہتے ہیں۔
امریکی دوغلا پن دیکھنا ہو تو صرف یہ ملاحظہ کریں کہ کبھی کولیشن سپورٹ فنڈ روکتے ہیں تو کبھی پاکستان سے وعدے کے باوجود ہتھیار نہیں دیتے، رقم وصول کرکے برسوں اپنے پاس رکھتے ہیں۔ آج کل اندھیرے میں دیکھنے والے آلات کی فراہمی میں پس و پیش کررہا ہے۔ امریکا پاکستان کا حلیف ہے لیکن جدید ترین خطرناک ہتھیار بھارت کو فراہم کررہا ہے، پاکستان احتجاج تک محدود رہتا ہے اور بس۔۔۔ اس سے زیادہ پاکستانی حکمران کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ یہ بات تو امریکیوں کی گٹھی میں پڑی ہوئی ہے کہ جب مطلب ہو تو ہر بات مان لو اور جب مطلب نکل جائے تو پہچاننے سے انکار کردو۔ اب جب کہ خرابی بسیار کے بعد افغانستان میں معاملات امریکیوں کے کنٹرول میں نہیں آرہے تو پاک افغان امریکی نمائندہ خصوصی کا دفتر بحال کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا اور اس مقصد کے لیے پاکستان کے لیے 20 کروڑ ڈالر کی منظوری دے دی گئی۔ لیکن کانگریس نے دوسری طرف کولیشن سپورٹ فنڈ کے 35 کروڑ ڈالرز حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ کے خلاف کارروائی اور دہشت گردوں کے مبینہ ٹھکانوں کے خاتمے سے مشروط کردیے ہیں۔ یہ ٹرک کی لال بتی ہے نہ حقانی نیٹ ورک کے ٹھکانے ملیں گے نہ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں۔ لشکر طیبہ یا جماعت الدعوۃ کو امریکا و بھارت جو چاہے قرار دیں پاکستانی عدلیہ نے انہیں دہشت گرد قرار نہیں دیا ہے۔ لیکن امریکا نے اس بہانے رقم روک رکھی ہے، رقم ہی نہیں روکی بلکہ دھمکیاں دینے کا عمل بھی جاری ہے۔ وزیر دفاع جنرل جان نکلسن دو روز قبل ہی یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ بھارت اور ناٹو کے ساتھ مل کر پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے بیان میں شکوہ اور دھمکی دونوں شامل تھے کہ پاکستان کا رویہ بدلا ہے نہ تعاون کررہا ہے۔ پاکستانی حکومت صرف ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کررہی ہے جو اس کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ ہمارے مطالبات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ انہوں نے چند ہفتوں اور چند ماہ میں بہت سی تبدیلیوں کی توقع بھی ظاہر کی ہے۔ بہر حال جنرل جان نکلسن کے شکوے پر دل بڑا خوش ہوا۔ اگر پاکستانی فوج ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کررہی ہے جو پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ یہ دہشت گرد امریکا و بھارت کے ایجنٹ ہیں۔ ورنہ کوئی اپنے حلیف پر حملہ کرنے والے کو مارنے پر ناراض ہوتا ہے؟؟ پھر بھارت اور ناٹو کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف کارروائی کی دھمکی اس بات کی دلیل ہے کہ ہم امریکا کے حلیف نہیں شکار اور نشانہ ہیں۔ بہر حال امریکا کی جانب سے ناموس رسالت قانون ختم کرنے کے مطالبے پر پاکستان کو صرف یہی جواب نہیں دینا چاہیے کہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے بلکہ پرزور احتجاج کے ساتھ یہ سوال بھی کرنا چاہیے کہ کیا آپ حضرت عیسیٰؑ کی توہین کی اجازت دے سکتے ہیں۔ پاکستانی قوم اور دنیا بھر کے مسلمان اس کی بھی اجازت نہیں دے سکتے۔ اگر پاکستانی حکومت نے اس حوالے سے کوئی حرکت کرنے کی کوشش کی تو یہ حکمران دنیا میں بھی ذلت و رسوائی کا شکار ہوں گے۔