گٹکے پر پابندی کا بل 

433

سندھ اسمبلی میں گٹکے اور مین پوری کی تیاری و تقسیم پر پابندی کا بل منظور ہوگیا ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے سزائیں بھی تجویز کردی گئی ہیں ۔ لیکن اس ضمن میں سب سے پہلے تو ان پولیس والوں اور تھانے داروں کو سزا ملنی چاہیے جن کی سرپرستی میں یہ کام دھڑلے سے ہو رہا ہے۔ پولیس کے افسران و اہلکار گٹکا بنانے والوں سے باقاعدہ بھتا وصول کرتے ہیں اور ان کو پورا تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔ جب تک ان کی گرفت نہیں کی جائے گی، کسی بل سے یہ لعنت ختم ہونے والی نہیں۔ پچھلے ماہ ہی پکڑ دھکڑ کے نتیجے میں یہ دھندا بڑی حد تک کم ہوگیا تھا اور گٹکے، مین پوری کے عادی افراد بلبلائے پھر رہے تھے کہ اچانک یہ دھندا پھر شروع ہوگیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ قوانین تو بن جاتے ہیں لیکن ان پر عمل نہیں ہوتا کیوں کہ عمل کرانے والی طاقتیں تو وہ ہی ہیں جو اپنے مفاد کی خاطر قانون شکنی کو نہ صرف نظر انداز کرتی ہیں بلکہ سماج دشمن عناصر کی سرپرستی بھی کرتی ہیں ۔ گٹکے کا استعمال نہایت خطرناک ہے۔ اس سے منہ اور حلق کا کینسر ہوسکتا ہے۔ عموماً نوجوان طبقہ اس لت میں مبتلا ہے۔ گٹکا بنانے ، بیچنے اور اس کو تحفظ فراہم کرنے والے نوجوانوں کی صحت سے کھیل رہے ہیں ۔ یہ بھی ایک طرح کا نشہ ہے جو دوسرے نشوں کی طرف لے جاتا ہے۔ گٹکے میں جس قسم کی سڑی ہوئی اشیاء ملا جائی ہیں اگر اسے استعمال کرنے والے دیکھ لیں تو خودمتنفر ہو جائیں۔ طبی ماہرین نے تو چھالیہ کے استعمال کو بھی کینسر کا سبب قرار دے دیا ہے اور گٹکے میں تو سڑی ہوئی چھالیہ استعمال کی جاتی ہے۔ اب تو تعلیمی اداروں میں طلبہ زیادہ خطرناک نشے میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ جہاں تک ان معاملات کی روک تھام میں پولیس کا کردار ہے تو عدالت عظمیٰ کی کراچی رجسٹری میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران میں جسٹس سجاد علی شاہ نے بہت سخت تبصرہ کیا ہے کہ کراچی کے تھانے ریڑھی والوں کے پیسوں سے چلتے ہیں اور تھانے دار بھی بھتے پر چل رہے ہیں۔ ایسے تھانے دار اور اہلکار بھلا گٹکے اور مین پوری کی لعنت ختم کرسکیں گے یا بھتا لے کر اپنا گھر چلائیں گے۔گزشتہ دنوں شوریٰ ہمدرد کے اجلاس میں بھی منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ گٹکا، مین پوری کے خلاف کوئی موثر قانون موجود نہیں۔ ملک کی64فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ان میں نشہ کی لت قوم کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ منشیات کا باآسانی دستیاب ہونا ہے اور یہ دستیابی قانون کی حکمرانی نہ ہونے کے سبب ہے۔ جو قانون موجود ہے اس کا نفاذ نہیں کیا جاتا۔ پولیس سمیت تمام ادارے منشیات کی دستیابی کو ناممکن بنانے پر توجہ دیں۔