انا کے قیدی

571

یہ کیسا المیہ ہے، کیسی بدنصیبی ہے کہ ہم قومی مسائل اور سیاسی معاملات پر بحیثیت ایک قوم کبھی نہیں سوچتے، ہماری سوچ اپنی پسندیدہ شخصیت اور پارٹی تک محدود رہتی ہے۔ چند دن قبل ایک ٹی وی پر ’’جمہوریت نہیں تو پھر کیا؟ کے موضوع پر طلبہ کی رائے طلب کی گئی، طلبہ کے جوابات بڑے فکر انگیز تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی طالب علم نے بے نظیر بھٹو، یوسف رضا گیلانی، پرویز اشرف، آصف علی زرداری، میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی تعریف نہیں کی۔ کچھ طالب علموں نے جنرل ایوب خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کی قومی خدمات کا ذِکر کیا اور ان کے دور حکمرانی کو بہتر قرار دیا۔ طلبہ کے جوابات سیاست دانوں اور جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کو دعوت فکر دیتے ہیں مگر المیہ یہ بھی ہے کہ سیاست دان اور دانش ور طبقہ انا کے گنبد میں قید ہے جہاں ان کی آواز کی بازگشت کے سوا کوئی اور آواز سنائی نہیں دیتی۔
میاں نواز شریف تین بار وزارت عظمیٰ کی مسندپر جلوہ افروز رہے، پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی رہے ان کے اقتدار کا دورانیہ تیس پینتیس سال کے لگ بھگ ہے مگر اتنے طویل عرصے میں انہوں نے کوئی ایسا کام سرانجام نہیں دیا جسے عوام یاد رکھ سکیں، ان کے اندر سوجھ۔۔۔میں!میں! عوام ہی کی نہیں ان کی اپنی آواز پر بھی بھاری ہے۔ بھٹو مرحوم جنرل ایوب خان کو احتراماً ڈیڈی کہا کرتے تھے، اختلاف اور رنجش کے باوجود جنرل ایوب خان کی تصویر جو ان کے کمرے میں آویزا تھی کبھی نہ ہٹائی کیوں کہ بھٹو مرحوم سماجی اور سیاسی اخلاقیات سے آگاہ تھے۔ اخلاقیات کی اہلیت کے گرویدہ تھے، میاں نواز شریف کی نظر میں اخلاقیات کی کوئی اہمیت نہیں، وہ جنرل ضیا الحق سے متاثر تھے اور برملا اپنی محبت کا اظہار کیا کرتے تھے مگر جنرل صاحب کی ناگہانی موت کے بعد ’’تُو کون اور میں کون‘‘ کی تصویر بن کر رہ گئے۔ اب وہ جنرل ضیا الحق کا نام لینا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب جو وزیراعلیٰ کے بجائے خادم اعلیٰ کہلوانا پسند کرتے ہیں انہوں نے اپنی خدمات کو مذاق بنا رکھا ہے، کبھی ہسپتال کی پرچی فیس پانچ روپے، کبھی ایک روپیہ اور کبھی مفت، حالاں کہ پرچی فیس پانچ روپے ادا کرنے سے غربت میں اضافہ نہیں ہوتا مگر جب اختیارات کو مذاق بنا لیا جائے تو ایسے ہی تماشے دکھائی دیتے ہیں۔ وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور کے سائیکل اسٹینڈ کی فیس کا بھی یہی حال ہے کچھ عرصے قبل سائیکل کھڑی کرنے کی فیس دو روپے ہوا کرتی تھی پھر یہ فیس ختم کردی گئی اور پھر پانچ روپے کردی گئی۔ اب کچھ دنوں سے کار کھڑی کرنے کی فیس بیس روپے اور موٹر سائیکل اور سائیکل کھڑی کرنے کی فیس دس روپے کردی گئی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی قوت فیصلہ کمزور ہے بلکہ انتہائی کمزور ہے وہ دوسروں کے فیصلے کا کیا احترام کریں گے وہ تو اپنے فیصلے پر بھی قائم نہیں رہتے۔ سوال یہ ہے کہ اس شعبدے بازی کی کیا ضرورت ہے؟ اور اس کا مقصد کیا ہے؟ شاید وہ عوام کو ذہنی اذیت دینے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔
ٹی وی پر طلبہ سے یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ جمہوریت نہیں تو پھر کیا؟ مگر اس سوال سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ جمہوریت ہے کہاں؟ اگر جمہوریت اصل صورت میں نافذ العمل کردی جائے تو یہ نظام سبھی کو قابل قبول ہوگا۔ شاید ہم کچھ غلط کہہ گئے کہ عوام کے سوا کوئی بھی اصل جمہوریت کا طلب گار نہیں اور جہاں تک سیاست دانوں کا تعلق ہے تو وہ تو اپنی پارٹی میں بھی جمہوریت نہیں چاہتے، ملک میں جمہوریت کو کیسے گوارا کریں گے۔ بعض طلبہ نے اسلامی نظام کی بات کی تو اینکر صاحب نے فرمایا کہ دنیا میں 58 ملک اسلامی ہیں مگر وہاں بادشاہت ہے اور اکیس ویں صدی میں بادشاہت قابل قبول نہیں۔ مگر جمہوریت کے نام پر آمریت بھی تو ناقابل قبول ہے۔ جمہوریت کا مقصد عوام کی حکومت، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے چلانا ہے جو لوگ لنگڑی لولی عورت کو اپنی بیوی کے روپ میں دیکھنا پسند نہیں کرتے وہ کس منہ سے لنگڑی لولی جمہوریت کو بہتر حکومت قرار دیتے ہیں۔ پاکستان میں نہ کبھی جمہوریت تھی نہ اب ہے، اس جمہوریت نے عوام کو آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے سوا کیا دیا ہے۔ ہاں یاد آیا یوسف رضا گیلانی اور پرویز اشرف بھی دیے ہیں۔