دھرنے اور عوام کی پریشانیاں

420

راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم فیض آباد پر لبیک یارسول اللہ نامی تنظیم نے 13دن سے دھرنا دے رکھا ہے جس کی وجہ سے جڑواں شہروں کے مکین سخت اذیت میں مبتلا ہیں۔ تنظیم کا مطالبہ خواہ کتنا ہی درست ہو لیکن وفاقی وزیرداخلہ کا کہنا ہے کہ مذہب کے نام پر عوام کو تکلیف دینا صحیح نہیں ہے۔ معروف عالم دین مفتی منیب الرحمن نے بھی دھرنوں اور راستے بند کرنے کے عمل کو نا پسند یدہ قراردیاہے۔ لیکن ہفتہ 18نومبر کو دھرنا کراچی میں بھی شروع ہوگیا اور محمد علی جناح روڈ پر واقع نمائش چورنگی بند کردی گئی ہے جس سے کراچی کی مصروف ترین شاہراہ اور اس سے منسلک راستے بند ہونے سے ایک بار پھر بد ترین ٹریفک جام کا منظر ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کی بات درست ہے لیکن مذہب کے نام پر راستے بند کرنے کے عمل میں حکومتیں بھی معاون ہوتی ہیں اور پولیس کی حفاظت اور نگرانی میں یہ کام ہوتا ہے۔ ایم اے جناح روڈ تو اس طرح بند کردی جاتی ہے کہ اطراف کے لوگ محصور ہوجاتے ہیں اوردو ، دو دن تک تمام دکانیں اور کاروبار بند رہتاہے۔ ماہ محرم اور صفر میں بار بار اس بندش کا سامنا کرنا پڑتاہے اور اب 12ربیع الاول قریب ہے ۔ اس تاریخ کو رسول اکرم ؐ کی ولادت سے منسوب کیاجاتاہے اور جلوس نکالے جاتے ہیں جس کی وجہ سے راستے بند ہوتے ہیں۔ تاہم چونکہ اس دن عام تعطیل ہوتی ہے اس لیے عوام کو زیادہ پریشانی نہیں ہوتی۔ حکومت کو چاہیے کہ چہلم کے موقع پر بھی عام تعطیل کا اعلان کردیاکرے تاکہ عوام پریشان نہ ہوں۔ فیض آباد دھرنا تو طول کھینچتا جارہاہے اور مفتی منیب الرحمن کا مشورہ ہے کہ کوئی درمیانی راستہ نکال کر دھرنا ختم کردیاجائے۔ عدالت عالیہ اسلام آباد نے بھی ہفتہ کی صبح10 بجے تک دھرنا ختم کرانے کا حکم دے رکھاتھا لیکن حکومت نے کسی تصادم سے بچنے کے لیے مزید 24گھنٹے کی مہلت دیدی ہے۔ اگر کوئی آپریشن ہوا تو بہت خطر ناک ہوگا اور بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔لبیک یا رسول اللہ کے قائدین مصر ہیں کہ جب تک ان کا مطالبہ نہیں ماناجائے گا وہ دھرنا ختم نہیں کریں گے اور حکومت نے جو دھمکی دی ہے اس پر عمل کے منتظر ہیں۔ حکومت نے کچھ علماء و مشائخ کو بیچ میں ڈالا ہے اور خدا کرے کہ کسی خونریزی کی کے بغیر ہی یہ مسئلہ حل ہوجائے۔ ختم نبوت حلف نامے میں ترمیم واپس ہو گئی ہے اور قومی اسمبلی و سینیٹ میں بل منظور ہوگیا ہے جس کے مطابق احمدی اور قادیانی اسلام سے خارج ہیں۔ اب یہ مطالبہ رہ گیا ہے کہ وزیر قانون استعفیٰ دیں جن پر الزام ہے کہ وہ حلف نامے میں ترمیم کے ذمے دار ہیں۔ زاہد حامد بار بار اپنی صفائی پیش کرچکے ہیں کہ وہ قادیانی نہیں ، مسلمان ہیں۔ ان کی بات تسلیم کرلینی چاہیے ۔ وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا ہے کہ حلف نامہ بحال کردیا، دیگر تحفظات دور کرنے کو تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ متنازع ترمیم وزیر قانون یا وفاقی حکومت نے نہیں کی۔ اگر ایسا ہے تو بھی یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ جس نے بڑی ہوشیاری سے یہ کام کیا ہے اسے سامنے لایاجائے۔ یہ کوئی معمولی غلطی نہیں تھی بلکہ قادیانیوں کو مسلمان ثابت کرنے کے لیے ابتدائی اقدام تھاجو بروقت ناکام بنادیاگیا۔ حکومت میں کچھ ایسے شر پسند بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ احمدی بھی مسلمان ہیں اور محض چند معاملات مختلف ہیں۔ تحریک لبیک یارسول اللہ کا پیغام حکمرانوں اور ہر شر پسند تک پہنچ گیا ہے ۔ چنانچہ اب عوام کو پریشانی سے بچانے کے لیے دھرناختم کردینا چاہیے۔ اورکچھ نہیں تو عدالت کے احترام میں دھرنا ختم کردیں۔ کسی آپریشن کے پیش نظر راولپنڈی اسلام آباد کے دکانداروں کو بھی کاروبار بند رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے اور اسپتالوں میں ایمر جنسی نافذ کردگئی ہے۔ اسلام آباد میں غیر ملکی سفارت کاروں کو بھی باہر نہ نکلنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اسلام آباد میں غیر ملکی وفود بھی آتے رہتے ہیں ان پر پاکستان کا اچھا تاثر قائم نہیں ہوگا۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں احتجاج کے موقع پر ایک آمر جنرل پرویز مشرف نے طاقت کا استعمال کرکے نفرت انگیز اقدام کیاتھا۔موجودہ حکومت اس کا اعادہ کرنے سے گریز کررہی ہے اور پوری کوشش ہے کہ معاملہ افہام و تفہیم اور مذکرات سے حل ہوجائے۔ ادھر کراچی میں بھی دھرنا دینے سے بد ترین ٹریفک جام ہوگیاہے۔ منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہورہاہے۔ عوام کو کس بات کی سزا دی جارہی ہے۔ دین و مذہب کے نام پر راستے بند کرنے والی تنظیموں کو سمجھ لینا چاہیے کہ عوام کی ہمدردیاں ان کے ساتھ نہیں ہوتیں۔