وہ کھلے سمندر کی طرف بہتا جا رہا تھا اور مدد کے لیے پکار رہا تھا…
چھوٹا پنگو بہت ہی چیخل اور شرارتی تھا۔ اسے کسی جگہ ٹک کر بیٹھنا آتا ہی نہ تھا۔ ایک دفعہ اس کے والدین پنگوئین نے فیصلہ کیا کہ وہ تینوں پکنک پر جائیں۔ ساحل سمندر پر پہنچ کر وہ تینوں کھیلتے رہے اور پھر کھانا کھا کر پنگو کے والدین تھوڑا آرام کرنے لگے۔ اس دوران ان دونوں کی آنکھ لگ گئی۔ جبکہ پنگو ابھی بالکل بھی نہ تھکا تھا۔ وہ بہت خوش تھااور اس کا دل ہی نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ آرام کرے۔اس نے سوچا کہ کیوں نہ میں آس پاس کے ساحل کی سیر کروں اور اچھل کود میں وقت گزاروں۔ اس نے اپنے چھوٹے ٹیڈی بیئر کو ساتھ لیا اور آس پاس کے علاقوں کے دیکھنے نکل کھڑا ہوا۔ پہلے تو وہ ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ گیا اور اونچے ٹیلے سے نیچے کی طرف بیٹھ کر لڑھکنے لگا۔ اور اس طرح اسے بہت مزہ آیا۔ کچھ دیر بعد اس نے سوچا کہ کیوں نہ وہ سمندر کے کنارے چلتا جائے۔ سمندر کا ساحل برف سے بھرا تھا۔ اونچے نیچے برف کے ٹکڑے اور چٹانیں پھیلی ہوئیں تھیں۔ وہ قلانچیں بھرتا ایک سے دوسری برف کی سلوں پر آگے بڑھتا رہا۔ ایک دفعہ اس نے برف کی ایک بڑی سی سل پر چھلانگ لگائی تو اسے زور دار چٹاخ کی آواز آئی۔ پنگو ایک دم سناٹے میں آگیا۔ مگروہ سمجھ نہ سکا کہ کیا ہوا۔ اب جو اس نے اردگرد نظر دوڑائی تو اسے سمجھ آئی کہ ہوا کیا تھا۔ دراصل برف کی یہ چٹان عین اس جگہ سے چٹک کر دو حصوں میں بٹ گئی تھی، جہاں پر پنگو چھلانگ لگا کر اترا تھا۔ آدھے حصے پر پنگو تھا اور آدھی دوسری جانب۔ اس اچانک پیدا ہونے والی صورتحال سے پنگوا یکدم خوفزدہ ہوگیا۔ اس کی بدقسمتی یوں شروع ہوئی درمیان سے ٹوٹی برف کی چٹان کے جس حصے پر وہ کھڑا تھا وہ کھلے سمندر کی طرف بہنا شروع ہوگیا۔ اس بات پر وہ بہت پریشان ہوگیا۔ اس نے شور مچانا شروع کیا۔ مگر کوئی اس کی مدد کو نہ آیا۔ لیکن پھر جب اس نے بہت مدد۔۔۔ مدد۔۔ مدد۔ کی آواز لگائی تو سمندر سے تیرتے ہوئے دو دریائی گھوڑے اس کے قریب آئے اور پنگو سے پوچھنے لگے کہ کیا ہوا؟ تم۔۔۔ کیوں شور مچا رہے ہو؟ اس پر پنگو کی ڈھارس بندھی اور اس نے ان دریائی گھوڑوں کو بتایا کہ معاملہ کیا ہے۔ اس نے بتایا کہ ’’ مجھے تیرنا نہیں آتا۔۔۔ اب میں کس طرح اپنے ابو امی کے پاس پہنچوں گا۔‘‘ کہتے ہوئے پنگو رونے لگا۔ دریائی گھوڑوں کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ پنگو کی کیسے مدد کریں۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد میں ان میں سے ایک بولا۔۔۔ ہم ایسا کرتے ہیں کہ اس برف کی چٹان کو دھکیلتے ہوئے واپس ساحل کی طرف لے جاتے ہیں۔ اور پھر ساحل کے قریب پہنچ کر پنگو چھلانگ مارکر اتر جائے گا۔‘‘ جتنی آسانی سے اس نے یہ مشورہ دیا تھا اتنا آسان یہ تھا نہیں۔ لیکن اْن دونوں دریائے گھوڑوں نے کافی مشکل سے ساحل تک پہنچا ہی دیا۔ اور پنگو نے ایک چھلانگ ماری اور وہ ساحل پر دھب سے گرا اس نے اٹھ کر خوشی سے دریائی گھوڑوں کا شکریہ ادا کیا اور جلدی جلدی والدین کے پاس لوٹ گیا۔ اور اس نے توبہ کرلی کہ وہ امی ابو کو بتائے بغیر کہیں نہیں جائے گا۔