وہ وہی تھا

261

سید ظھران جلیس
بندر کی حرکتیں دیکھ کر شیر اور لومڑی سب دبک کر بیٹھ گئے
ہمارے اسکول میں بھی ہر سال سالانہ امتحانات کے بعد ایک رنگا رنگ پروگرام اساتذہ اور طلبہ مل جل کر ترتیب دیتے ہیں۔ اس ہفتہ طلبہ کے سلسلے میں تقریری مقابلے ، مباحثے ، مقابلہ قرات ، نعت خوانی ، کرکٹ ، ہاکی کے مقابلے…. اور فن اداکاری کا ذوق رکھنے والوں کے لیے ٹیبلو، خاکے اور ڈرامے بھی اسٹیج ہوتے ہیں اور باصلاحیت طلبہ کو انعامات و اسناد سے نوازا جاتا ہے۔ اس سال بھی معمول کے مطابق ہفتہ طلبہ منایا گیااور اسٹیج ڈراموں میں ایک خاکہ بندر کے کرتوت پیش کیا گیا۔ جسے اکثریت نے پسند کیا۔ خصوصاً بندر کے کام کو بہت سراہا گیا۔ بعض حضرات نے بندر کی اداکاری کا مظاہرہ کرنے والے طالب علم کو ہی اصل بندر تک کہہ دیا۔ اس خاکے میں چار کردار تھے۔ شیر، لومڑی ، خرگوش اور بندر…. بندر کا کردار وامق کے سپرد کیا گیا تھا اور وامق کا اس کردار کے لیے انتخاب اس لیے کیا گیا کہ وہ بندروں کی سی حرکات بڑی مہارت سے کر لیتا تھا۔ اس خاکے میں کردار نگاری کے تین نمبر مقرر کیے گئے تھے۔ان میں پہلے دونمبر میک اپ اور گیٹ اپ کے تھے جبکہ ایک نمبر کردار نگاری یعنی حرکات و سکنات کے لیے۔ اس خاکے میں اب تک شیر کے میک اپ اور گیٹ اپ کی خوب ، خوب تعریف ہوئی تھی۔ شیر کا کردار توقیر احمد نے کیا تھا۔ اس کی دہاڑ کو سب نے شیر کی اصل دہاڑ سے قریب تر قرار دیا تھا۔ اسی طرح اس کے میک اپ اور گیٹ اپ کو بھی ہر ایک نے سراہا اور خوب خوب تعریف کی تھی۔ جبکہ خرگوش اور لومڑی کے کردار بس پسندہی کیے گئے تھے۔ کسی طرف سے کوئی خاص واہ واہ یا داد و تحسین کے نعرے بلند نہیں ہوئے تھے۔ اب اسٹیج پر بندر کے کردار کی باری تھی۔ اسٹیج پر قدرے اندھیرا تھا۔ بندر کا کردار اسٹیج پر آیا اس کی اچھل کود نے سب کو ہی خوب ہنسایا۔ سب کی توجہ اپنی اچھل کود اور اپنی حرکتوں سے اپنے کردار کی جانب مبذول کرالی۔ ہر طرف سے واہ واہ کا فلک شگاف شور بلند ہونے لگا۔ واہ بندر…. واہ…. ویلڈن بندر ویلڈن کے نعرے پنڈال میں گونجنے لگے۔
بندر کو ایک ہاتھ سے اسٹیج پر بنے مصنوعی درخت کی شاخ سے لٹکنا اور دوسرے ہاتھ سے پھل توڑ کر کھانا تھا۔ بندر نے یہ منظر اس خوبصورتی اور مہارت سے ادا کیا کہ سب بے ساختہ واہ واہ کر اٹھے۔ بندر نے اسٹیج پر بنائے گئے باغ کو پوری طرح تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ یہاں تک کہ اسٹیج پر لٹکے ہوئے روشن بلب کو بھی نہیں بخشا۔ مگر جب گرم بلب سے اس کے ہاتھ کو آنچ لگی تو اس نے فوراً ہی گھبرا کر بلب کو ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ اس منظر پر سارے تماشائی ہنستے ہنستے بے حال سے ہوگئے۔ اس منظر نے خاکے میں حقیقت کا رنگ بھر دیا تھا۔ بندر کی یہ ماہرانہ حرکتیں دیکھ کر شیر ، خرگوش اور لومڑی ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گئے تھے۔ وہ دل ہی دل میں سمجھ گئے تھے کہ اس سال بہترین کردار نگاری کا ایوارڈ بندر کے نام ہوا۔ آخر خاکہ تکمیل کو پہنچا اور اسٹیج کا پردہ نیچے گرا دیا گیا۔
ہفتہ طلبہ کا آخری دن انعامات اسناد اور ایوارڈ دیئے جانے کا دن تھا۔ اسٹیج پر بڑی سی میز پر دیئے جانے والے انعامات اور شیلڈز سجی ہوئی تھیں۔ اسناد بھی ایک طرف موجود تھیں۔ مختلف مقابلوں میں حصہ لینے اور اپنی صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ کرنے والوں کا نام اسٹیج سیکریٹری مائیک پر پکارتا اور وہ طالب علم اسٹیج پر آکر مہمان خصوصی سے اپنا انعام وصول کرکے واپس اپنی جگہ بیٹھ جاتا۔ حاضرین تالیاں بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے۔ تمام انعام یافتگان کے چہرے شگفتہ گلابوں کی طرح کھلے ہوئے تھے۔ آنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی۔ ان کے ساتھی بڑھ بڑھ کر ان کی کامیابی پر اپنی مبارکباد دے رہے تھے۔ مگر وامق ان سب سے الگ بالکل خاموش…. بلکہ بڑی حد تک گم سم سا بیٹھا ہوا تھا۔ کئی ساتھیوں نے چھیڑنے کی غرض سے جملے بازی بھی کی۔ کسی نے کہا دیکھو۔ بہترین کردار نگاری کا ایوارڈ وامق کو مل گیا تو کیسا سنجیدہ بنا بیٹھا ہے۔ جیسے کوئی دانش ور ہو۔ کسی نے کہا۔ نہیں یہ بات نہیں اسے غرور ہو گیا ہے اپنی کردار نگاری پر۔ اس کے کردار کو لوگوں نے پسند کیا کر لیا دماغ ہی چڑھ گیا ہے آسمان پر جناب کا۔ ایک نے کہا، اس کردار میں بھلا کمال کی کیا بات ہے۔ ڈارون کی تھیوری اور تحقیق کے مطابق آج کا انسان بندروں کی ہی نسل سے تو ہے۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں کے مصداق جس کے منہ میں جو آرہا تھا وہ کہہ رہا تھا۔
یار وامق…. کیا بات ہے۔ تم خاموش کیوں ہو؟…. کیا نہ بولنے کی قسم کھالی ہے؟ یا چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ نشید نے اسے بولنے کے لیے اکساتے ہوئے کہا۔
بہت زور دینے پر وامق کی سنجیدگی کم ہوئی۔ اس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی اور بولا۔ وہ میں نہیں تھا۔ وہ وہی تھا۔
کیا مطلب…. نشید حیران ہو کر بولا۔
ہاں…. میں بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ وہ میں نہیں تھا وہ وہی تھا۔
کیا پہیلیاں سی بجھوا رہا ہے یار…. سیدھی طرح بتا ناں…. یہ کیا ہے…. وہ میں نہیں تھا…. وہ وہی تھا کا مطلب کیا ہے۔ نشید نے جھلائے ہوئے سے انداز میں کہا۔ بھائی جو کچھ کہنا چاہتے ہو۔ صاف صاف اور آسان لفظوں میں کہو۔ قریب بیٹھے ہوئے عارف نے بھی نشید کی تائید کی۔
تو سنو…. اصل بات یہ ہے جو کسی کو بھی نہیں معلوم۔ وامق نے کہا اور ہم سب وامق کی طرف متوجہ ہوگئے۔ حقیقت یہ ہے کہ بندر کے کردار میں اسٹیج پر میری انٹری ہی نہیں ہو سکی۔ میک اپ مین نے اپنا سارا زور شیر کا کردار ادا کرنے والے لڑکے پر صرف کر دیا تھا۔ اسی کے گیٹ اپ کو ابھارنے میں ساری توجہ ساری مہارت صرف کردی۔ میرے علاوہ سب جانوروں کے اسٹیج پر چلے جانے کے بعد روم میں صرف میں ہی اکیلا رہ گیاتھا۔ وقت آنے پر جب میں اسٹیج کی طرف بڑھا تو نجانے کہاں سے ایک اصلی بندر وہاں پہنچ گیا اور اسٹیج پر دھماچوکڑی مچانے لگا۔ اسٹیج پر بندر کو کوئی مکالمہ تو ادا کرنا ہی نہیں تھا۔ اچھل کود اور خوں خوں کی آواز ہی تو نکالنی تھیں۔ میں اچانک اس اصلی بندر کو اپنے سامنے دیکھ کر ڈر گیا تھا اور روم میں ہی چھپ کر بیٹھ گیا۔ کہیں وہ مجھے کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔ اس اصلی بندر نے اسٹیج پر وہ دھماچوکڑی مچائی کہ سب اسے اداکاری سمجھ کر واہ واہ کرنے اور تالیاں بجانے لگے…. بندر نے جو کچھ کیا وہ اپنی عادت، اپنی خصلت کی وجہ سے کیا۔ لوگوں نے اسے اداکاری سمجھا اور مجھے کردار نگاری کا بہترین ایوارڈ اور بہترین گیٹ اپ کا اعزاز مل گیا۔ وامق نے کہا۔
اوہ تو یہ بات تھی۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ آخری سین میں تمہاری دم کہاں سے آگئی۔ کیونکہ مجھے اچھی طرح یاد ہے تمہارا گیٹ اپ کرنے کے بعد میں دم لگانا تو بھول ہی گیا تھا۔ میک اپ مین نے کہا پتہ نہیں۔ میں نے وہ دم کہاں رکھ دی تھی اب تک یاد نہیں آئی۔
وہ دم تم نے شیر کو لگا دی تھی۔ اس کے معاون نے کہا۔ یار…. یہ بات شیر کا کردار کرنے والے لڑکے کو مت بتا دینا ورنہ وہ تو دھاڑ دھاڑ کر آسمان ہی سر پر اٹھا لے گا۔ ٹھیک ہے۔ میں بھی کسی کو نہیں بتاؤں گا کہ اسٹیج پر بندر کا کردار میں نے ہی ادا کیا تھا کسی اصلی بندر نے نہیں۔ وامق نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اور اسی لمحے بہترین کردار نگاری کے لیے ایوارڈ وصول کرنے کے لیے اس کے نام کا اعلان ہو گیا۔