سیاہ اُجالا

355

ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
فیملی کورٹ میں پیش کیا جانے والا یہ مقدمہ اپنی نوعیت کا بڑا منفرد تھا ۔ مدعی خاتون نے جس شخصیت کے خلاف دعویٰ دائر کیا تھا وہ خود فیملی کورٹ کے جج تھے ۔ اس عہدے کو انہوں نے آج ہی سنبھالا تھا ۔ وہ صاحب اختیار جج جو دوسروں کے خلاف لمحے بھر میں فیصلے کر دیا کرتے تھے آج خود اپنی عدالت میں مجرم کے کٹہرے میں کھڑے تھے ۔ جرم عائد کرنے والی ہائی کورٹ کی ایک وکیل تھی ۔ ایک اعلیٰ پائے کی وکیل دعویٰ صرف چند الفاظ یا چند جرائم پر مبنی نہیں تھا ۔ یہ پچیس سال پر محیط تھا۔ جو دعویٰ پیش کیا گیا تھا اس میں لمحہ لمحہ رقم تھا ۔ جج صاحب کے خلاف جو وکیل کورٹ میں دلائل دے رہی تھیں وہ ان کی اپنی بیٹی تھی جو اپنی پیدائش سے پہلے باپ کی زیادتیوں کا شکار ہوئی تھی ۔ اس کے ساتھ اس کی حوصلہ مند ماں کھڑی تھی ۔ جس نے اسے نہ صرف جنم دیا تھا بلکہ ہر ہر لمحے جینے کا حوصلہ بھی دیا تھا ۔ اس کی ٹانگوں میں نقص ہو گیا تھا ۔ جس کی وجہ سے وہ کافی عرصے تک چلنے پھرنے سے معذور رہی ۔ یہی ماں تھی جو اس کو ہر جگہ علاج و معالجے کے لیے پھرتی رہی ۔ ڈاکٹروں نے اسے پیدائشی نقص بتایا ۔ آرتھو پیڈک سرجن نے اس کے لیے آپریشن تجویز کیا ۔ ماں نے دعائوں اور دوائوں سے اپنی بیٹی کی معذوری کو محرومیء ہرگز نہیں بننے دیا ۔ اس کی ماں نے اسے بتایا تھا کہ پیدائش کی خبر سن کر اس کے باپ نے ہنگامہ برپا کر دیا تھا اور اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ کیونکہ وہ بیٹیوں سے نفرت کرتا تھا ۔ اے اپنی بیوی سے بھی نفرت تھی ۔ اس کی شادی تو صرف ایک سمجھوتے کی بناء پر ہوئی تھی ۔ اور وہ سجھوتہ ، دولت ، مکان اورجائداد پر ہوا تھا ۔ز اہد سعید کا یہ مشغلہ تھا کہ وہ ہر روز اخبار میں ایسے اشتہارات پڑھتا تھا جو کسی مجبور والدین کی طرف سے دیا گیا ہوتا تھا ، جن کی بیٹیاں کسی جسمانی معذوری یا عمر زیادہ ہو جانے کی وجہ سے شادی سے محروم تھیں ۔ بیٹیوں کی خوشی کی خاطر ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار ہو جاتے ۔ زاہد سعید ایک متوسط گھرانے کا خوبصورت نوجوان تھا۔ پیشے کے اعتبار سے وہ وکیل تھا ۔ اپنی چر ب زبانی اور لفاظی سے وہ بڑے سے بڑے کیس جیت لیا کرتا تھا ۔ اپنے حلقۂٔ احباب میں بے حد مقبول تھا ۔ اسے اپنے حسین ہونے کا احساس تھا اس لیے وہ نوجوان خواتین وکلاء میں بہت پسند کیا جاتا تھا ۔ اتوار کا اخبار پڑھتے ہوئے ایک دن اس کی نظر اس اشتہار پر پڑی جو ہائی کورٹ کے جج مرغوب احمد کی طرف سے تھا ۔ اور انہوں نے اپنی بیٹی کے رشتے کے لیے بڑی دلکش ترغیبات رکھی تھیں ۔ ایک ہزار گز کا ڈبل اسٹوری بنگلہ ، پچاس لاکھ کیش ، اس کے بدلے میں انہیں صرف پڑھا لکھا شریف نوجوان مطلوب تھا ۔ زاہد سعید اس موقع پر گنوانا نہیں چاہتا تھا ۔ یہ حقیقت تھی کہ اس کا تعلق ایک شریف گھرانے سے تھا مگر یہ بھی حقیقت ڈھکی چھپی نہیں تھی کہ وہ خود شریف نہیں تھا ۔ اس کا باپ نہایت غیور ، ایماندار اور دیانتدار ، سرکاری ملازم تھا ۔ جو ناجائز کمائی کو خود اپنے اور اپنی اولاد کے لیے حرام سمجھتے تھے ، اور تنگی ترشی میں گزارا کرتے تھے ۔ زاہد سعید اپنے پانچ بہن بھائیوں میں سب سے خوبصورت تھا ۔ گریجویشن کے بعد اس نے وکالت کا امتحان پاس کیا اور بہت جلد اچھے وکیلوں میں اس کا شمار ہونے لگا ۔ وکالت تو کھیل ہی الفاظ کے برجستہ استعمال کا ہے اور زاہد سعید ان کا استعمال بر وقت کرنا جانتا تھا ۔ وہ بڑے سے بڑے مجرم کو بے قصور ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا تھا ۔ا سی لیے مجرم کے گھرانے اس کی منہ مانگی فیس ادا کرنے میں لمحہ بھر کی بھی تاخیر نہ کرتے تھے ۔ کیونکہ انہیں یہ ڈر ہوتا تھا کہ اگر وکیل کی فیس انہوں نے بر وقت نہ ادا کی تو وہی وکیل اس بندے کو پھانسی تک لے جانے میں بھی دیر نہ کرے گا ۔ ہر مجرم کو جرم کرنے کے بعد اپنی موت کا نوے فیصد یقین ہوتا ہے اور وہ پھانسی کے پھندے کا منتظر ہوتا ہے ۔ لیکن اگر و وکیل کی ذہانت کی بنا پر شک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بری ہو جائے تو وہ اپنی زندگی کی ہر قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے ۔ مجرموںکی نفسیاتی کیفیت سے زاہد سعید اچھی طرح واقف تھا ۔ وہ اس سے خوب فائدہ اٹھانا جانتا تھا ۔ پیسے کی ہوس نے اس کو مرغوب احمد کی بیٹی کی طرف متوجہ کیا ۔ رابیل مرغوب احمد کی اکلوتی بیٹی تھی ۔ معمولی سی شکل اور گہرے سانولے رنگ کی وجہ سے وہ احساس کمتری میں مبتلا تھی ۔ ابلاغ عامہ میں ماسٹرز کرنے کے بعد وہ ایک انگریزی اخبار سے وابستہ ہو گئی ۔ کانونٹ کی پڑھی ہوئی رابیل کی انگریزی بہت اچھی تھی ۔ لکھنے اور بولنے میں اس کو پوری کمانڈ حاصل تھی ۔ اس کے لکھے ہوئے خواتین کے مسائل سے متعلق مضامین ، انگریزی داں طبقے میں بہت مقبول تھے ۔ عورتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا اسے خوب ادراک تھا ۔ ان پر اس کا وسیع مطالعہ تھا۔ حقائق کو مدلل انداز میں بیان کر نا اس کے قلم کا کمال تھا ۔ مرغوب احمد اپنی بیٹی سے بے پناہ محبت کرتے تھے ۔

(جاری ہے)