پنجاب کی 56 سرکاری کمپنیوں میں بد عنوانی

301

قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے پنجاب کی 56 سرکاری کمپنیوں میں بد عنوانی کی تحقیقات کا حکم دیا ہے اور کہاہے کہ ثبوت اکٹھا کرنے کے کام کی تکمیل تک نہ روکا جائے۔ ان منصوبوں میں وسائل کے بے دریغ استعمال، نا اہل افراد کے تقرر، خریداری میں بے قاعدگیوں، منصوبوں کی بروقت تکمیل نہ ہونے جیسے الزامات اور آڈٹ نہ کرانے کی شکایات تھیں۔ چیئرمین نیب نے بجا فرمایا کہ ثبوت اکٹھا کرنے تک کام نہ روکا جائے۔ لیکن جس بنیاد پر ان محکموں اور کمپنیوں میں تحقیقات ہورہی ہے وہ تو ہر سرکاری ادارے کی کہانی ہے۔ یہ جو کہانیاں ہیں کئی کروڑ تک جاتی ہیں لیکن اگر نیب ہمت کرے تو دائرے کو مزید پھیلائے اور ذرا بڑے اداروں کی طرف رخ کرے۔ اسے بھی کام کا مزا آئے گا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بد عنوانی کے خلاف کارروا ئی نہ کی جائے لیکن پہلے میاں نواز شریف کے گرد پھر شہباز شریف کے گرد گھیرا تنگ کرنے سے میاں نواز شریف کے الزام کو تقویت مل رہی ہے کہ احتساب کیا نہیں کروایا جارہاہے یعنی جو کچھ ہورہاہے اوہ کیا نہیں کروایا جارہاہے۔ اس پہلو پر بھی نظر رکھیں کہ کسی اور جرم میں پھنسا ہوا مجرم نیب کی کسی غیر محتاط کارروائی کے نتیجے میں مظلوم نہ بن جائے۔