ہمیں سیاسی شخصیت پرستی سے کب نجات ملے گی

345

ہمارے معاشرے میں آج کل سیاسی رہنما جس طرح کی ثقافت کو پروان چڑھا رہے ہیں نہ اس کی اجازت ہمارا دین دیتا ہے اور نہ ہی ہمارا معاشرہ انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کے جو عدالتی فیصلہ ان کے حق میں آجائے وہ انصاف پر مبنی ہے اور جو فیصلہ ان کے خلاف آجائے وہ نا انصافی اور سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کے ہمارے ملک کی عوام نے اپنے پسندیدہ سیاسی رہنماوں کو عقیدت کے اس درجہ پر پہنچا دیا ہے جہاں وہ ان کو تمام غلطیوں کوتاہیوں اور کرپشن سے پاک سمجھتے ہیں اور ان کے خلاف کچھ سننا پسند ہی نہیں کرتے۔
بلکہ ان سیاست دانوں کی تمام غلطیوں کے باوجود اور عدالتوں سے ملنے والی سزا کے باوجود کچھ عاقبت نااندیش لوگوں ان کا استقبال بھی ایک ہیروں کی طرح کرتے ہیں جس سے نہ صرف ہماری بحیثیت قوم پوری دنیا میں پہچان ایک کرپشن کو پسند کرنے والی نا اہل لوگوں کی حمایت کرنے والی کی سی ہو گی ہے اور شرمندگی کا مقام یہ ہے کے عدالتوں سے سزا پانے والوں کی حمایت میں جس طرح ان کا دفاع کیا جاتا ہے اور اپنی کرپشن پر شرمندہ ہونے کے بجائے مخالفین کی کرپشن کے معملات پر گفتگوں شروع کرکے ایسا ظاہر کیا جاتا ہے کے جیسے ہر طاقتور کا کرپشن کرنا اس کا حق ہے ان تمام حالات پر عوام کا کردار انتہائی مایوس کن ہے ہم سب کو بحیثیت قوم اس بات کا عہد کرنا ہوگا کے ہمیں شخصیت پرستی سے باہر آکر جن حضرات کو عدالت سزا دے اور جو سیاست دان مسائل کی کمی کا رونہ رو کر عوام کی توقعات پر پورا نہ اترے اس کا احتساب کرتے ہوئے اس کو کسی بھی قیمت پر منتخب نہ کرے تب ہی ہم اپنے پیارے ملک میں تبدیلی لا سکتے ہیں ورنہ پانچ سال اپنے مسائل پر روتے رہوں اور الیکشن پر اپنی آنکھوں پر عقیدت کی پٹی باند کر پھر سے انہی نااہل لوگوں کو منتخب کرکے اگلے پانچ سال رونے کا انتظام اپنے ہاتھوں سے کریں اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہیں تبدیلی لاتے ہیں یا اسی طرح کی زندگی گزارتے ہیں۔
محمد شاہد، کراچی، چراغ ہوٹل، لانڈھی
shahid.m1713@gmail.com