سندھ حکومت کی منظوری کے بعد آرٹس کونسل کراچی نے مختلف سرکاری اسکولوں میں اپنے کام کا آغاز کردیا ہے۔ جن کا مقصد بچوں کو ناچ گانے کی تربیت فراہم کرنا ہے، بلدیہ ٹاؤن کے معروف گرلز سیکنڈری اسکول میں بھی آرٹس کونسل اپنا کام کررہی ہے اور مرد حضرات پر مشتمل ٹرینر گروپ لڑکیوں کو ناچ گانے کی تربیت فراہم کررہا ہے۔ سندھ حکومت کا موقف ہے کہ ناچ گانا ہماری ثقافت ہے۔ اسکول وہ مقام ہے جہاں بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اساتذہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جو بچوں کو شعور دیتے ہیں، علم کی روشنی سے ان کے ذہنوں کو منور کرتے ہیں لیکن سندھ حکومت تعلیم کے بجائے ناچ گانے کو فن قرار دے کر اس کی تربیت میں مصروف ہے۔ غریب بچوں کو مشہوری اور لاکھوں روپے کمانے کا لالچ دے کر بے حیائی کی جانب راغب کیا جارہا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ اسکول میں ایسی بھی بچیاں آتی ہیں جن کی مائیں، باپ، بھائیوں سے چھپ کر بچیوں کو اسکول بھیجتی ہیں۔ افسوس کی بات یہ نہیں کہ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے مواقعے میسر نہیں، اسکول اور جامعات کا تقدس اس قدر پامال کیا جارہا ہے کہ کسی باپ بھائی کی غیرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ ان کی بیٹیاں، بہنیں اسکول جائیں، جہاں غیر مرد ان کو ناچ گانے کی تربیت فراہم کریں۔ والدین بچوں کو تعلیم کے لیے اسکول بھیجتے ہیں، بچے اساتذہ کے پاس امانت ہوتے ہیں لیکن سندھ حکومت بچوں کو تعلیم سے دور کررہی ہے۔ کیا اسکول ناچ گانے کے مراکز ہیں، علم ناچ گانا ہے، زندگی کا مقصد مشہوری اور لاکھوں روپے کمانا ہے، آرٹس کونسل کی نظر میں ناچ گانے کے علاوہ کوئی فن نہیں تو سندھ حکومت اسکول بند کردے اور اساتذہ کو نکال دے۔ جامعات میں نشہ آور اشیا کی فراہمی کی خبریں عام ہیں اور سندھ حکومت اس کی روک تھام کے بجائے فن کے نام پر بچوں کو بے راہ کرنے میں مصروف ہے۔ تعلیمی مراکز کا تقدس کیا یوں ہی پامال ہوتا رہے گا، مراد علی شاہ صاحب ناچ گانا ہماری ثقافت نہیں ہے، ہمارا دین اسلام ہے اور علم ہماری میراث ہے۔ یہ بھولا ہوا سبق یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔
جویریہ اعظم