مغرب کی طرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤ گے 

308

ڈاکٹر سیما سعید

’’ماما! میرا فون خراب ہوگیا ہے، نیا چاہیے‘‘۔
’’کچھ دن ٹھیر جاؤ، نومبر کے اینڈ میں ’’بلیک فرائیڈے‘‘ ہوگا۔ گرینڈ سیل لگے گی، بہت کم میں مل جائے گا۔‘‘ بہن نے کتاب سے نظریں ہٹائے بغیر جواب دیا۔
’’بلیک فرائیڈے؟ یہ کیا ہے؟ اور یہ فرائیڈے کب سے بلیک ہوگیا؟‘‘ ہم نے سوال کیا۔
’’ماما! نومبر میں سیل لگتی ہے، گرینڈ سیل، جس میں ہر چیز پر 70، 80 فی صد ڈسکاؤنٹ دیتے ہیں۔ سستی چیزیں ملتی ہیں بہت۔ میری دوست بھی بتارہی تھی۔ پچھلے سال دبئی سے ماموں نے بلیک فرائیڈے پر کئی فون خریدے تھے، جو انہیں گفٹ کیے اور اب تو پاکستان میں بھی لگتی ہے بلیک فرائیڈے سیل۔۔۔!‘‘
’’مگر بلیک فرائیڈے کیوں؟ جب سیل لگارہے ہیں تو اسے گولڈن یا گرینڈ فرائیڈے کیوں نہیں کہتے؟‘‘
’’اماں! یہ امریکا، یورپ میں کرسمس سے پہلے بڑی سیل لگتی ہے۔ رش بہت ہوتا ہے، ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔ اسی لیے انہوں نے اسے بلیک کردیا۔‘‘ صاحب زادی نے ہماری معلومات میں اضافہ کیا۔
’’استغفراللہ!‘‘
یہ پچھلے سال کی بات ہے جب ہمیں بچوں کی زبانی پہلی بار بلیک فرائیڈے کا علم ہوا۔
اب اس سال بھی نومبر شروع ہوتے ہی بلیک فرائیڈے کا شور ہے۔ لوگ سیل کے لیے یعنی بلیک فرائیڈے کے منتظر ہیں۔ سوچنے کی بات ہے۔ جمعہ اور وہ بھی بلیک۔۔۔ بلیک یعنی ’سیاہ جمعہ‘ جسے سن کر ماتم و افسردگی کا خیال آئے۔ حد ہوگئی!
ہمارے لیے بحیثیت مسلمان تصور ہی محال ہے، فرائیڈے یا جمعہ کو بلیک تصور کیا جائے۔
جمعہ تو ہمارے لیے رحمتوں، برکتوں اور عافیتوں کا دن ہے۔ جس کی فضیلت قرآن میں ہے، جس پر پوری سورہ نازل کی گئی۔ جسے اللہ تعالیٰ نے دنوں میں مقدس ترین دن قرار دیا۔ جمعہ کی نماز تک کاروبار بند رکھنے کا حکم دیا گیا۔ جمعہ کی برکت اور فضیلت کے باعث ہم صبح ہی سے اہتمام کرتے ہیں۔ اب بھی، باوجود اس کے کہ جمعہ کی چھٹی نہیں رہی لیکن اللہ اور اس کے حکم کے موجب غسل کرنا، کثرت سے اذکار ودرود پڑھنا سنت بھی ہے کیوں کہ صبح سے عصر تک کی مقبول ترین ساعتیں دعاؤں کی قبولیت کی گھڑیاں بتائی گئی ہیں۔ وہ جمعہ بلیک یا سیاہ کیسے ہوسکتا ہے؟
یہ دنیا نہیں، آخرت کا معاملہ ہے۔ ذرا ان غلامانہ ذہنیت کے تاجروں سے کوئی یہ پوچھے کہ یہ نومبر میں سیل کس سلسلے میں لگ رہی ہے؟ کرسمس کے لیے نا! آپ نے کبھی رمضان میں تو سیل لگائی نہیں۔ یہ کیسے مسلمان ہیں؟ نقالی میں اس قدر حد سے گزر جاتے ہیں کہ اپنی تہذیب، اپنے مذہب، اپنی حمیت کو بھی داؤ پر لگا دیا!
سوچنے کی بات ہے کہ ایک طرف تو آپ کی تہذیب پر ضرب لگائی گئی۔ ویلنٹائن ڈے جیسے بے حیائی کے دن کو ’’محبت‘‘ اور خوشی کا دن کہہ کر سیکولر طبقے نے اختیار کیا اور رفتہ رفتہ پورے ملک میں ’’محبت‘‘ کا دن یوں عام ہوگیا کہ برائی ہی نہیں رہی۔ اس سال شیطان کے پجاریوں نے کامیابی کی سیڑھی پر قدم رکھ کرہم سے ہیلووین بھی منوالیا۔ اب ان کے آلہ کار، سیکولر سوچ رکھنے والے، خود کو لبرل کہنے والے مسلمان، تاجرانہ ذہنیت کے حامل، جن کا ایمان صرف پیسہ ہے، جمعہ کے مقدس ترین دن کو ’سیاہ جمعہ‘ قرار دینے ممکن ہے کوئی کہے کہ یہ تو ایک اصطلاح ہے، اصطلاح سے کیا ہوتا ہے۔ اصطلاحات ہی قوموں کی پہچان بن جاتی ہیں اور اصطلاحات ہی ان کے انداز فکر کو بدل ڈالتی ہیں۔ مغرب کی سازش ہے یہ کہ مسلمانوں کو بتدریج دین سے دور کرتے چلے جاؤ۔
مغربی ذہنیت کا جو کام ہے سو ہے، مگر ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کہاں جارہے ہیں؟ ہم آنکھ بند کرکے ان کے پیچھے چلے جارہے ہیں، یہ جانے بنا کہ اس کا اختتام بخیر نہیں ہوگا۔۔۔ پستیوں میں جہنم کی تاریکیوں میں۔
مجھے بچپن کی پڑھی وہ کہانی یاد آتی ہے۔ ایک جادوگر پہلے ایک بستی کو اپنی جادوئی بانسری کے زور پر چوہوں سے نجات دلاتا ہے اور پھر بستی والوں کی وعدہ خلافی پر وہ جادوگر اسی بانسری کی جادوئی دھن پر بستی کے بچوں کو اپنے ساتھ لے جاتا ہے اور وہ سب ہوش سے بیگانہ پیچھے پیچھے چلتے چلے جاتے ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ یہاں جادوگر مغرب ہے اور ہاتھ میں شیطانی بانسری، جس کی دھن پر بظاہر مسلمان مذہب کے تاجر مست چلے جارہے ہیں۔
بچائیے اپنی نسلوں کو اس نئی روشن خیالی سے ۔۔۔ کہیں دیر نہ ہوجائے۔ یاد رکھو، مغرب کی طرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤگے! بقول شاعر:
سورج ہمیں ہر شام یہ درس دیتا ہے
مغرب کی طرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤ گے…!!!