امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے متنبہ کیا ہے کہ احتساب کے نام پر انتخابات کا التوا ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ وہ کراچی میں ایک تربیتی اور دعوتی اجتماع سے خطاب کررہے تھے۔ لہٰذا کراچی کا ذکر آنا بھی لازم تھا۔ انہوں نے دوسری اہم بات یہ بھی کہی کہ کراچی سے مینڈیٹ لینے والوں نے 30برس میں کچھ نہیں کیا۔ یہ دونوں باتیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ پاکستانی قوم ایک مرتبہ یہ سارا ڈراما بھگت چکی ہے جب جنرل ضیاء الحق انتخابات کروانے والے تھے کہ پہلے احتساب پھر انتخاب کے نعرے نے انہیں موقع دے دیا اور وہ 90دن کے بجائے 11سال اقتدار میں گزار گئے۔ لہٰذا احتساب کو تو سارا سال جاری رہنا چاہیے اگر کوئی رکن پارلیمنٹ غلط بیانی کر کے پارلیمنٹ میں پہنچ جائے یا بدعنوان ہو اور پارلیمنٹ میں پہنچ جائے تو اسے اسی وقت پارلیمنٹ سے نکالا جاسکتا ہے۔ اب جبکہ وزیر اعظم کو نا اہل کیا جاسکتا ہے تو کوئی بھی رکن پارلیمنٹ کو خواہ وہ کوئی بھی ہو اسمبلی یا سینیٹ سے فارغ کر کے اس کا احتساب کیا جاسکتا ہے۔ احتساب کے نام پر انتخابات ملتوی کرنا قطعاً مناسب نہیں ہوگا۔ ہاں انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے جو اقدامات کرنے ہیں ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ جب انتخابات ہوں تو شفاف ہوں اور جہاں جہاں لوگوں کو اپنی مرضی سے ووٹ ڈالنے کا موقع نہیں دیا جاتا اس کا اہتمام کیا جائے کہ لوگ اپنی آزادمرضی سے ووٹ ڈال سکیں۔ خصوصاً کراچی میں۔ کراچی میں مینڈیٹ لینے والوں نے 30برس قبل اہل کراچی کو حقوق دلوانے کی بات کی تھی۔ لیکن تیس برس مسلسل حکومت کا حصہ رہنے کے باوجود اہل کراچی بنیادی حقوق ہی سے محروم ہیں۔ کراچی کے نام پرمیئر بننے والا ابھی تک اختیارات کا رونا رو رہا ہے۔ مینڈیٹ لینے والوں نے 30برس کراچی والوں کو 35ہزار لاشوں، قبرستان آباد کرنے، بھتوں کی پرچیوں، 12مئی، 17اپریل، سانحہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری اور قتل و غارت کے تحفوں کے سوا کیا دیا ہے۔ سراج الحق کا یہ مطالبہ درست ہے کہ پاناما میں ملوث تمام لوگوں کو کٹہرے میں لایا جائے۔ ہر کام اپنے اپنے وقت اور طریقے کے مطابق ہونا چاہیے۔ کسی کام کو دوسرے کام کی وجہ سے موخر یا منسوخ نہیں کیا جانا چاہیے۔