رہبروں کے روپ میں رہزنی

470

پارلیمانی بدعنوانی اور رہزنی کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ اب تک قوم کو یہ نہیں بتایا جارہا کہ قادیانیوں کو فائدہ پہنچانے والی ترمیم کس نے کس کے کہنے پر کی تھی۔ یہ کلرک کی غلطی تھی یا دانستہ سازش۔۔۔ اس کا ذمے دار اگر وفاقی وزیر قانون ہے تو اس کے خلاف کیوں کارروائی نہیں ہوئی اور اگر وہ ذمے دار نہیں ہے تو پھر کون ذمے دار ہے؟ لیکن اس دوران ایک اور رہزنی ہوئی اور اس رہزنی میں حکومت اور اپوزیشن نے اتحاد و تعاون کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ اس مرتبہ انتخابات کے لیے نامزدگی فارم میں مالی گوشواروں کے فارم سے دوہری شہریت کا کالم اور حلف نامہ حذف کر دیا گیا ہے اور اس کو الیکشن ایکٹ 2017 کا حصہ بنا کر الیکشن کمیشن کو بے بس کر دیا گیا ہے۔ آئین کے تحت دوہری شہریت والا شخص رکنِ پارلیمنٹ منتخب نہیں ہوسکتا لیکن یہ حلف نامہ حذف ہونے کے بعد نااہل قرار پانے والے سیاست دان فوجداری مقدمات سے بھی بچ نکلیں گے۔ اب اس ملی بھگت کو کیا کہیں وزیر قانون کی شرارت‘ کلرک کی غلطی یا ان ارکان پارلیمنٹ کی شرارت جنہوں نے اپنی دوہری شہریت اب بھی چھپا رکھی ہے یا دوسرے ملک کی شہریت کے لیے درخواست دے رکھی ہے۔ اس سے قبل یہ انتخابی قوانین کا حصہ تھا اور رکن پارلیمنٹ کو ہر سال یہ حلف نامہ بھر کر دینا ہوتا تھا کہ وہ دوہری شہریت نہیں رکھتا اور نہ ہی اس نے کسی اور ملک کی شہریت کے لیے درخواست دے رکھی ہے ۔جب کہ اس حلف نامے کے ساتھ ایک اجازت نامے پر بھی دستخط کرنے ہوتے تھے جس کے تحت حکومت کسی ملک کے سفارت خانے کو اس رکن پارلیمنٹ کی شہریت سے متعلق معلومات پاکستانی وزیر خارجہ کو دے سکتی ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکے گا۔ اس بات کو سمجھنا اور ان لوگوں کو تلاش کرنا اب تو کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن یا عدالت عظمیٰ تمام ارکان اسمبلی کی شہریت کے حوالے سے معلومات ویب سائٹ کے ذریعے مشتہر کرے تاکہ دوسرے ممالک‘ جن کی شہریت کے لیے ان میں سے کسی نے درخواست دے رکھی ہو‘ اس کا علم ہوسکے۔ ایسے لوگوں کو پہچاننا مشکل نہیں جو بار بار برطانیہ‘ امریکا اور کینیڈا جاتے ہیں زیادہ تر انہی ممالک کی شہریت کے لیے بے چین ہوتے ہیں اور یہاں آسانی سے شہریت مل بھی جاتی ہے لیکن اس حرکت سے پتا چلا کہ پاکستانی پارلیمنٹ میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر پہنچنے والے لوگ اپنی ساری قوت عوام کو دھوکا دینے کے لیے صرف کر رہے ہیں۔ قادیانیوں کو سہولت دینے والا قانونی نکتہ کسی نے بھی حذف کرایا ہو اس کو حکومت اور اپوزیشن نے مل کر قانون بنایا تھا اب جب کہ ایک اور رہزنی سامنے آگئی ہے‘ اس سے پتا چل رہا ہے کہ پاکستان میں رہبر کے روپ میں رہزن ہی بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس رہزنی کے حوالے سے پنجاب حکومت کے آشیانہ اقبال منصوبے کی تحقیقات کے آغاز سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ رہبر ہی رہزن بنے ہوئے ہیں۔ چیئرمین نیب بڑے طمطراق سے اعلان کر رہے ہیں کہ ملک 84 ارب روپے کا مقروض ہوگیا ہے‘ وصولی کے لیے انتہائی اقدام کریں گے۔ بیرون ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے گی۔ لیکن نیب کے حوالے سے اس کی کارکردگی کا تو کبھی جائزہ ہی نہیں لیا گیا۔ چھوٹی موٹی خبریں سامنے آتی ہیں لیکن دل چسپ امر یہ ہے کہ جس روز نیب کے سربراہ بڑھ چڑھ کر لوٹی ہوئی رقم واپس لانے اور بلاامتیاز کارروائی کے دعوے کر رہے تھے اسی روز کے اخبار کے صفحہ اوّل میں چھوٹی سی خبر لگی ہوئی ہے کہ نیب 11 سال میں شریف برادران کے خلاف 16مقدمات کی تحقیقات نہ کرسکا۔۔۔ تو کیا یہ سب بھی رہزنی ہے۔۔۔ رہبر کے روپ میں رہزنوں کو بچانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ سب مل کر چور چور کا اتنا شور مچاؤ کہ کسی کو اصل چور کا پتا ہی نہ چلے۔ بسا اوقات رات کے وقت جب چوکیدار چور کو دیکھ کر شور مچاتا ہے تو چور سب سے آگے چور چور۔۔۔ پکڑو پکڑو کے نعرے لگاتا ہوا بھاگ رہا ہوتا ہے۔ دیکھنے والے یہی سمجھتے ہیں کہ چور آگے کہیں نکل گیا ہے اور چور کو کچھ نہیں کہتے۔ اس سارے عمل کے نتیجے میں عوام پس رہے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ عوام ہی اپنے خلاف اس سازش کے ذمے دار بھی ہیں۔ جب انتخاب کا وقت آتا ہے تو وہ سوچ سمجھ کر رکن پارلیمنٹ کو منتخب نہیں کرتے۔ اس وقت اپنی زبان‘ برادری‘ علاقہ‘ لیڈر اور پسندیدہ شخصیت آڑے آجاتی ہے کوئی اصول‘ ضابطہ‘ منشور اور سابقہ کارکردگی کا جائزہ نہیں لیتا۔ چھ چھ مرتبہ رکن منتخب ہونے والے کیا کرتے رہے؟ عوام انہیں پھر اسمبلیوں میں کیوں بھیج دیتے ہیں؟ کیا محض اس لیے کہ ان کی پسندیدہ پارٹی نے ایک بار پھر اسے ان پر مسلط کر دیا ہے۔ مسئلہ یہ بھی نہیں کہ پسندیدہ پارٹی نے مسلط کیا ہے یا لسانی پارٹی نے‘ مسئلہ یہ ہے کہ عوام کبھی اس امر کا جائزہ تو لیں کہ وہ پہلے کہاں کھڑے تھے اور اب کہاں کھڑے ہیں۔ جن لوگوں کو اسمبلیوں میں جن مطالبات کی منظوری اور مسائل کے حل کے لیے بھیجا گیا تھا وہ کبھی ان پر کام نہیں کرتے۔ ایم کیو ایم تین مرتبہ کوٹا سسٹم کی تاریخ پڑھوا چکی‘ محصور پاکستانیوں کو لانے میں ناکام رہی‘ کراچی کے محکمے سندھ حکومت کے قبضے میں جانے سے نہیں روک سکی‘ اپنے ہی لوگوں کو لوٹ لوٹ کر اور قتل کرکے لیڈری چلاتی رہی لیکن انتخاب کے وقت لوگ اگر یہ کہیں کہ ’’کیا کریں۔۔۔ اپنے ہی لوگ ہیں‘‘ تو پھر نتائج ایسے ہی آئیں گے۔