متحدہ مجلس عمل کی بحالی

437

شاعر نے کہاتھا

ڈھونڈنے میں بھی مزہ آتا ہے
کوئی شے رکھ کے بھلادی جائے

متحدہ مجلس عمل کو بھی عر صہ ہوا رکھ کربھلادیاگیا تھا۔اللہ بھلا کرے جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اورجماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کا جو اس اتحادکو ڈھونڈنے نکلے۔اس اتحاد کی یاداور کشش نے انھیں ایسا ہی بے تاب کیا جیسے میرکو دلی اور یگانہ کو لکھنو کی محبت بے تاب رکھتی تھی ۔

کشش لکھنؤ ارے توبہ
پھر وہی ہم وہی امین آباد

متحدہ مجلس عمل نے2002کے عام انتخابات میں خیبر پختوانخواہ میں حکومت بنائی تھی۔ یہ اتحاد قومی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت بن کر ابھرا تھاجس کی وجہ سے اس کے پاس قائد حزب اختلاف کا اہم عہدہ تھا۔جس وقت متحدہ مجلس عمل نے یہ کامیابیاں حاصل کیں یہ وہ وقت تھا جب امریکا نے افغانستان میں قدم رکھے تھے۔ پاکستان امریکا کے نان ناٹو اتحادی کے درجے پر فائز تھا۔پاکستان کو اس امریکی دباؤ کا سامنا نہیں تھاجو آج کل درپیش ہے۔امریکا پوری دنیا میں اسلامی دینی جماعتوں کی کا میابیوں کو سبوتاژ کرنے کے لئے جس طرح سرگرم عمل ہے ۔وہ اسلام کو واحد مقابل طاقت سمجھتا ہے اوران جماعتوں کو کچلنے کے لئے سرگرم ہے جو اسلامی شناخت رکھتی ہیں اور اسلام کے نفاذ کے لئے کوشاں ہیں۔اب اس میں کسی شک وشبہہ کی گنجائش نہیں کہ امریکا کا اگلا نشانہ پا کستا ن ہے۔ گزشتہ دنوں امریکا کی طرف سے یہ موقف سامنے آچکا ہے کہ پاکستان سے نمٹنے کے لئے وہ بھارت اور ناٹو فورسز سے اتحاد کرنے کی راہ پر ہے۔ایسے میں وہ پاکستان میں دینی جماعتوں کو سرگرم اور طاقت حاصل کرتے کیسے دیکھ سکتا ہے۔وہ ان کی راہ میں حائل ہونے کی ہر کوشش کرے گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ خیبر پختوانخواہ جہاں متحدہ مجلس عمل نے کا میا بیاں حاصل کی تھیں وہاں تحریک انصاف کی صورت میں ایک نئی سیاسی قوت کا ظہور ہوچکا ہے جو ملک گیر عزائم رکھتی ہے۔مسلم لیگ ن سے لے کر پیپلز پارٹی تک سب اس کی جارحانہ سیاست کے نشانے پر ہیں اور اس کے مقابل دفاعی پوزیشن اختیار کرچکی ہیں۔مولانا فضل الرحمن اور عمران خان کے درمیان جس قسم کی بلند آہنگ مکالمہ بازی اور سیاسی تناؤ رہا ہے اس کے پیش نظر مذکورہ اتحادکوتحریک انصاف کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا ہوگا۔مولانا فضل الرحمن اب تک عمران خان کی کامیابیوں کی راہ روکنے میں ناکام رہے ہیں۔کیا متحدہ مجلس عمل کی صورت میں وہ خیبر پختونخواہ میں پھر سے ماضی کی تاریخ دہرانے میں کا میاب ہوسکتے ہیں۔کیا وہ عمران خان کو ٹف ٹائم دینے میں کامیاب رہیں گے ۔اگر متحدہ مجلس عمل کو خیبر پختونخواہ میں کا میابی حاصل نہ ہوسکی تو پھر پورے پاکستان میں اس کی پذیرائی کی کیا صورتحال ہوگی۔یقیناًیہ تمام سوالات متحدہ مجلس عمل کی قیادت کے سامنے ہوں گے۔
پنجاب میں گزشتہ دنوں ایک نئی مذہبی قوت نے جنم لیا ہے۔تحریک لبیک یا رسول اللہ ۔ممتاز قادری کی شہادت کے موقع پر اس جماعت کا دوٹوک موقف سامنے آیا تھاتاہم لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 120کے ضمنی الیکشن میں اس جماعت کے امیدوارشیخ اظہر حسین رضوی نے تیسری پوزیشن حاصل کرکے سب کو حیران کردیا تھا۔انھوں نے 7130ووٹ حاصل کیے تھے۔یہ اقتدار کے ایوانوں کی طرف اس جماعت کی پہلی پیش قدمی تھی۔گزشتہ ماہ قومی اسمبلی کے اندر الیکشن بل2017کے حوالے سے امیدواران کے حلف نامے کو جس طرح اقرار نامے میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی اس صورتحال کابھی اس جماعت نے بھرپور فائدہ اٹھا یا۔ آج کل یہ جماعت جڑواں شہروں کے سنگم پر دھرنے کی صورت اپنی طاقت کامظاہرہ کررہی ہے۔چھ نکاتی مطالبات کی حمایت میں جس کے دھرنے کی مدت میں اضافہ ہونے کے باوجود کسی ضعف کے آثار نظر نہیں آرہے۔یہ جماعت ملک گیر سطح پر اپنے آپ کو منظم کررہی ہے ۔۔ابھی تک ایسی کوئی خبر سامنے نہیں آئی ہے کہ متحدہ مجلس عمل کے قائدین نے اس جماعت کو اتحاد میں شامل کرنے کی کوئی کوشش کی ہے اور نہ ہی اس کے امکان نظرآرہے ہیں کہ یہ جماعت متحدہ مجلس عمل کا حصہ بنے گی۔تحریک لبیک کا کوئی نمائندہ متحدہ کے اجلاس میں شریک نہیں ہوا۔نظر یہی آرہا ہے کہ یہ جماعت متحدہ کے مقابل کردار ادا کرے گی اور اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گی۔
پاکستانیوں کی واضح اکثریت ملک میں قرآن وسنت کے مطابق بنائے گئے قوانین کا مکمل طور پر اطلاق چاہتی ہے۔سوال یہ ہے کہ پھر عوام ان دینی سیاسی جماعتوں کوووٹ کیوں نہیں دیتے جو اس ملک میں اسلام کے نفاذکے لیے کوشاں ہیں۔ کیوں ان جماعتوں کو انتخابی کامیابی کے لیے اتحاد تشکیل دینے پڑتے ہیں۔ 1973کے پہلے عام انتخابات سے لے آج تک دینی جماعتیں بہترین افراد کا مجموعہ ہونے کے باوجود کسی بھی انتخاب میں با وقعت کامیا بی حا صل نہ کرسکیں۔اس پر بعض حلقے طعنہ مارتے ہیں کہ عوام تو ایک طرف دینی جماعتوں کے پیروکار بھی انھیں صرف مسجد میں نماز،نکاح، خطبہ اور موت پر دعاء مغفرت تک اپنا قائد تسلیم کرتے ہیں لیکن ملک وقوم کی سیادت کے لیے ان پراعتما د، بھروسہ اوریقین کرنے پر تیار نہیں۔اسمبلی میں چند سیٹیں اورکبھی کبھار چند وزارتیںیہی حاصل سفر ہے۔
دینی جماعتو ں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک غلط نظام کا حصہ ہیں۔وہ ایک کرپٹ نظام میں شامل ہیں۔کرپٹ نظام میں کرپٹ لوگ ہی کا میاب ہو سکتے ہیں۔عوام جانتے ہیں کہ اس نظام میں ان کے مسائل رشوت،سفارش ،اقرباپروری ،ناجائز ہتھکنڈوں،دھونس دھاندلی اور بدعنوانی کے بغیرحل نہیں ہو سکتے اس لیے ایک ایسا نمائندے کاانتخاب ہی ان کے لیے فائدہ مند اور بہتر ہو سکتا ہے جوان طورطریقوں سے آراستہ اوران حربوں کے استعمال میں ماہر ہو۔جو مروجہ قوانین اورضابطوں کو روندتا ہوا گزر جائے لیکن رجوع کرنے والے کو مایوس نہ کرے ۔بہر طو ر،جائز نا جائز کی پروا کیے بغیرلوگو ں کے کام کرسکے۔ دینی جماعتوں کے لوگ منتخب ہوتے ہیں تو نہ اپنے لیے کچھ کرتے ہیں اورنہ کسی اور کے کام آتے ہیں۔
ایک اوراہم وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کے عوام کی عظیم اکثریت اپنی رائے کے اظہاراور نمائندے منتخب کرنے میں آزاد نہیں ہے۔پاکستان
کے عوام کی 70 فی صد آبادی دیہات میں رہتی ہے۔یہ سب جاگیرداروں،زمینداروں، وڈیروں اورسرداروں کے مزارعین اور غلام ہیں پیروں اور گدی نشینوں کے مریداورڈھورڈنگر ہیں۔ پاکستان کی یہ عظیم اکثریت،یہ عظیم رعیت،یہ خدام کا انبوہ اپنے ان آقاؤں کے علاوہ کسی اورکو منتخب کرنے کا تصور بھی کرسکے یہ ممکن نہیں۔ کسی طور دینی جماعتیں اگر اکثریت حاصل کرکے اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کر لیتی ہیں،حکومت سازی میں کا میاب ہوجاتی ہیں تو ایک ایسے نظام میں جو بڑی مہا رت سے دین کا انکارکرتاہے کیا یہ جماعتیں ملک میں اسلام نافذکرنے میں کامیابی حاصل کرسکتی ہیں۔پاکستان میں رائج نظام اپنی بنیاد،اساس اور تفصیلات میں غیر اسلامی ہے ۔کیسے ممکن ہے کہ اس نظام کے ذریعے، اس نظام کے اندر رہتے ہوئے آپ اسلام کی منزل تک پہنچ سکیں۔ جدوجہد کرتے ہوئے ستر کیا ہزار برس گزر جائیں۔ لیکن نظام کی تبدیلی کے لیے جدوجہد بھی تو لازم ہے۔ یہی انبیاء کا طریق ہے۔(تبصرے اور میسج کے لیے نمبر:03343438802)