روشنیاں ڈس گئیں چراغوں کو

420

بابا الف کے قلم سے
شاعر نے کہا تھا
یہ کیا کہ روشنیاں ڈس گئیں چراغوں کو
یہ حادثہ تو کبھی رونما ہوا ہی نہ تھا
بدقسمتی سے عدلیہ کے باب میں ایسے حادثے ہمارے یہاں معمول رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف جن کی دہائی دے رہے ہیں۔ احباب انہیں مشورے دے رہے ہیں کہ غصہ تھوک دیں، دل برانہ کریں ۔
ذرا سی بات پہ یوں دل برا نہیں کرتے
تو ٹھیک ٹھاک ہے چل یار چھوڑ ہا ہاہا
لیکن نواز شریف کا غصہ ہے کہ کم ہونے ہی میں نہیں آرہا۔ اتوار کو ایبٹ آباد میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے عدلیہ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا: ’’پاناما کیس کی نظرثانی کے فیصلے میں میری رہبری کا سوال اٹھایا گیا ہے کہ قافلے کیوں لٹتے رہے۔ سب کو معلوم ہے کہ عدلیہ رہزنوں کی معاون بنی رہی۔ اس نے کبھی رہزنوں سے کوئی گلہ نہیں کیا۔ 70سال میں کسی رہزن سے سوال تک نہیں کیا گیا نہ کسی رہزن کو کٹہرے میں لایا گیا۔ پرویز مشرف کو کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔ کوئی سوال تک نہ پوچھا گیا بلکہ ان کے ہاتھ پر بیعت کی گئی۔ آئین سے وفاداری کا حلف لے کر پی سی او کے حلف لیے گئے۔ آئین اسی وجہ سے بے توقیر ہوتا رہا، قافلے اسی لیے لٹتے رہے، جمہوریت بار بار پٹڑی سے اترتی رہی۔ منتخب نمائندوں کے ساتھ کیا ہوتا رہا اور آئین توڑنے والوں کے ساتھ کیا ہوتا رہا۔ ان سوالات کے جوابات جج ہی دے سکتے ہیں۔‘‘
جلسے میں نوازشریف جس تاثر کو قائم کرنے کی کوشش کرتے رہے وہ ان کے باب میں عدلیہ کی ناانصافی کا معاملہ تھا۔ وہ پورے ملک میں عدلیہ مخالف فضا قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ فوجی حکمرانوں کے حوالے سے ہماری عدلیہ کا طرز عمل کچھ ہے اور عوام کے منتخب حکمرانوں کے حوالے سے کچھ اور۔ پاناما کیس کے بارے میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے متعلق ان کا ابتداً خیال تھا
ملے تھے پہلے سے لکھے ہوئے عدالت کو
وہ فیصلے جو ہمیں بعد میں سنائے گئے
احباب کے سمجھانے پر اب وہ چوتھی سمت جانے سے گریز کرتے ہیں لیکن عدلیہ کے معاملے میں بدستور آتش فشاں ہیں۔ نواز شریف سے مخالفت اپنی جگہ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے ہماری عدلیہ کے فیصلے متنازع رہے ہیں۔ فوجی حکومتوں کے مقابل ہماری عدلیہ نے کبھی عزیمت کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ جسٹس محمد منیر نے غلام محمد ہو یا اسکندر مرزا اور ایوب خان کسی کے بھی ماورائے قانون وآئین اقدامات کی ہلکی سی مزاحمت بھی کرنے کی کوشش نہیں کی۔ حاجی سیف اللہ کیس میں جونیجو اسمبلی کو کس بنا پر بحال نہیں کیا گیا سب جانتے ہیں کہ مرزا اسلم بیگ ایسا نہیں چاہتے تھے۔ بھٹو کس دباؤ پر دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے اب کوئی راز نہیں۔ جنرل ضیا الحق کے پی سی او کے ججوں نے جس آسانی سے توثیق کی تھی اسے چیف جسٹس اے آر کار نیلیس نے عدلیہ کی عصمت دری (rape) قرار دیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے 12اکتوبر کے اقدام کو ہماری عدلیہ نے نا صرف یہ کہ حق بجانب قرار دیا تھا بلکہ ستم یہ ڈھایا کہ حکومت کی کسی درخواست کے بغیر اسے آئین میں تر میم کرنے کا حق بھی دے دیا۔ جون 2001 میں سابق صدر رفیق تارڑ کو ایک فوجی حکم کے تحت ان کے عہدے سے الگ کیا گیا تو اس وقت کے چیف جسٹس نے اس اقدام کے آئینی جواز یا عدم جواز کا لحاظ کیے بغیر جنرل پرویز مشرف کو نئے صدر کا حلف دلوادیا۔ عدلیہ کی بے توقیری کا یہ ایک المناک باب ہے۔ پرویز مشرف کے ایل ایف او کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا گیا تو عدالت نے یہ کہہ کر جان چھڑالی کہ اس کی آئینی حیثیت کا تعین مناسب وقت پر مناسب فورم پر کیا جائے گا۔ آمروں کا ساتھ دینے والوں کو کبھی باوقار مقام حاصل ہوسکتا ہے؟ ہماری عدلیہ کا یہ کبھی مسئلہ نہیں رہا۔
وہی قاتل وہی منصف عدالت اس کی وہ شاہد
بہت سے فیصلوں میں اب طرف داری بھی ہوتی ہے
المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں سول ہوں یا فوجی حکو متیں وردی والوں کی بالا دستی اور حکمرانی رہی ہے۔ سول حکمرانوں کی حیثیت ’’منتخب مجبوروں‘‘ سے زیادہ نہیں رہی۔ سول حکمرانوں کو پہلے فوجی حکومتیں معزول کرتی تھیں اب عدلیہ کررہی ہے۔ آئین کی کسی شق کی زد میں آتے ہیں تو عدلیہ انہیں فوراً گھر بھیج دیتی ہے۔ قانون کی بالادستی کے حوالے سے یہ ایک مستحسن قدم ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ فوجی حکمران پورے آئین ہی کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیں تو اس آئین شکنی کے خلاف کوئی ایکشن لینا تو کجا عدلیہ ان کی معاون ہوتی ہے۔ کسی بھی مہذب سماج میں قوانین امتیازی نہیں ہوتے۔
یہ سکے کا ایک رخ ہے۔ اگر آج ہم ایک غیر مہذب سماج ہیں تو اس میں عدلیہ کے ساتھ ساتھ حکمران اشرافیہ کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے بھی عوام پر کم ظلم نہیں کیے ہیں۔ وہ نواز شریف جو آج انقلاب کی بات کررہے ہیں ساٹھ کروڑ کا حفاظتی حصار ان کے محلات کے گرد سرکاری خزانے سے کھینچا گیا ہے۔ نواز شریف آئین کی بے توقیری کی بات کررہے ہیں اگر ڈکٹیٹروں کے ہاتھ پر بیعت کرنا آئین کی بے توقیری ہے تو یہ آئین کی اس سے بدرجہا بے توقیری ہے کہ آئین کے جس حصے میں عوام کو روٹی کپڑے، مکان، تعلیم، علاج اور مفت انصاف کی فراہمی کا وعدہ کیا گیا ہے پاکستا ن کے تمام سول اور فوجی حکمرانوں نے آئین کے اس حصے کو معطل کررکھا ہے۔ ہر طرح کے احساس اور غیرت سے عاری ان حکمرانوں نے پاکستان کو ایک ایسا ملک بنادیا ہے جس کے ایک حصے میں لوگ ڈالر اور پاؤنڈز کی گنگا میں نہا رہے ہیں اور دوسری طرف مائیں بھوک اور افلاس کے سبب بچوں سمیت خود کشیوں پر مجبور ہیں۔ پاکستان کے ان حکمرانوں کے اللے تللوں، فضول خرچیوں اور اسراف وتبذیر پر نظر کریں تو بے حسی میں جانور ان کے مقابل اعلیٰ اور ارفع مقام پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس ملک میں ساٹھ فی صد آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے لیکن وزیراعظم ہاؤس کا یومیہ خرچ 21لاکھ 35ہزار روپے ہیں۔ اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران جب نواز شریف بیرونی دوروں پر جاتے تھے تو ان کے بیرونی سفر کا ایک دن قوم کو 43لاکھ روپے میں پڑتا تھا۔ پاکستان کے عوام غربت اور افلاس میں پس رہے ہیں اور حکمرانوں کے آنگن میں ہیلی کاپٹر کھڑے ہوئے ہیں۔ عوام کے پیسوں سے وہ مہنگی ترین بڑی بڑی گاڑیاں خرید رہے ہیں۔ ان کے محلات کئی ایکڑوں پر پھیلے ہوئے ہیں جن کے گرد مسلح لشکروں کے پہرے ہیں، عوام کے خون سے نچوڑے ہوئے پیسوں سے وہ عالمی کانفرنسوں میں شرکت کے مواقع پر مہنگے ترین ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں۔ نواز شریف صاحب پرویز مشرف کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا مطالبہ کرتے وقت ان چوروں، لٹیروں، فرعونوں اور خائنوں کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کیجیے جو اس قوم کا دوسو ارب ڈالر لوٹ کر بیرون ملک لے گئے جن میں خود آپ بھی شامل ہیں۔ (برائے ایس ایم ایس : 03343438802)