کسٹمز نگرانی بھی خود مختاری کے خلاف ہے

452

ابھی سی پیک کا جادو پوری طرح سر نہیں چڑھا لیکن پاکستان کی اقتصادی خود مختاری پر وار شروع ہوگئے ہیں۔ نامعلوم کیا سبب ہے کہ پاکستان نے گوادر میں چینی کرنسی کے استعمال کا مطالبہ مسترد کردیا۔ ورنہ تو جو پیسہ دیتا ہے ہمارے حکمران اس کے مطالبات فوراً ہی تسلیم کرلیتے ہیں۔ چینی حکام نے ایکسچینج کے حوالے سے درپیش خطرات سے بچنے کے لیے گوادر فری زون میں چینی کرنسی یوان استعمال کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ پاکستانی حکام نے بڑی ہمت کی اور یہ جواب دیا کہ اس سے اقتصادی خود مختاری متاثر ہوگی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کسٹمز نگرانی کی منظوری د ے دی ، فیصلہ کمال کا ہے۔ اگر چینی کرنسی سے ملکی اقتصادی خود مختاری متاثر ہوسکتی ہے تو کوئی دوسرا ملک پاکستان میں کسٹمز نگرانی کیوں کر کرسکے گا۔ سی پیک کے حوالے سے مشترکہ تعاون کمیٹی کے اجلاس کے بعد وزیر داخلہ احسن اقبال نے دعویٰ کیا ہے کہ اب ہماری معیشت کو کوئی کریش نہیں کرسکے گا۔ یہ دعویٰ بھی بڑا غیر دانش مندانہ ہے کہ جس زمانے میں دنیا کے مختلف ممالک کی معیشت کریش ہوئی تھی وہ اسی قسم کے ماڈل کی بنیاد پر استوارتھیں جو سی پیک میں ہے۔ جبکہ اس وقت پاکستانی معیشت اس لیے کریش نہیں ہوئی تھی کہ پاکستانی معیشت کا انحصار اس ماڈل پر نہیں تھا۔ اب اس ماڈل پر انحصار دنیا میں آنے والا کوئی بھی اقتصادی بھونچال پاکستان کو لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ بات یہ ہے کہ پاکستان کو کرنسی کی طرح کسٹمز نگرانی کی اجازت بھی نہیں دینی چاہیے تھی۔ دوست اور قرضے دینے والے ملک کو بہت سی مراعات دی جاسکتی ہیں اوردی جانی چاہییں لیکن ملکی خود مختاری کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ کسٹمز نگرانی تو براہ راست مداخلت ہی ہے۔ اس قسم کے معاملات میں اکثر مطالبات کرنے والے دو چار قدم آگے کے مطالبات کرتے ہیں تاکہ کچھ پیچھے ہٹ کر بھی کچھ حاصل کرلیاجائے چنانچہ کرنسی اور کسٹمز نگرانی کے مطالبات ایک ساتھ کیے گئے تھے تو حکومت پاکستان نے دباؤ، ناسمجھی یا سازش کے سبب ایک کی منظوری دے دی۔ ابھی وقت ہے ایسے معاہدوں اور رعایتوں پر نظر رکھی جائے۔ قومی اسمبلی کیا کررہی ہے صرف ہاتھ اٹھانے والوں کا کلب ہے یا وہاں کچھ غور و فکر بھی کرنے والے بھی ہیں ؟