ناا ہل کی اہلیت

521

گزشتہ منگل کو قومی اسمبلی نے اکثریت کی بنیاد پر عدالت عظمیٰ کی طرف سے نا اہل، جھوٹا اور بے ایمان قرار دیے گئے نواز شریف کی مسلم لیگ ن کی سربراہی پر مہر تصدیق ثبت کردی۔جمہوریت کا یہی کمال ہے کہ علامہ اقبالؒ کے بقول اس طرز حکومت میں ’’بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے‘‘۔ یعنی ہر فیصلہ اکثریت کی بنیاد پر کردیا جاتاہے خواہ وہ کتنا ہی غلط ہو۔ خدا نہ کرے کبھی یہ وقت آئے کہ اکثریت کے بل بوتے پر قادیانیوں کو مسلم قرار دے دیا جائے یا آئین سے یہ شق خارج کردی جائے کہ کوئی بھی قانون خلاف اسلام نہیں ہوگا۔ جس شخص کے بارے میں عدالت عظمیٰ یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ وہ صادق ہیں نہ امین۔ ان کو ایک اہم سیاسی جماعت کی امانت سونپ دی گئی۔ ممکن ہے کہ قومی اسمبلی کے اس فیصلے کو میاں نوازشریف، ن لیگ اور جمہوریت کی فتح قرار دی جائے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ شرافت، اخلاق اور تہذیب سرپیٹتے پھر رہے ہیں۔ یہ فتح نہیں شکست ہے۔ نواز شریف نا اہلی کے باوجود مسلم لیگ ن کے صدر بن بیٹھے تھے جس کے خلاف پیپلزپارٹی کے نوید قمر نے اسمبلی میں بل پیش کردیا۔ رائے شماری میں اس بل کے حق میں 98اور اس کے خلاف 163 ووٹ آئے چنانچہ اسپیکر نے بل مسترد کردیا۔ بل کے محرک نوید قمر کا کہنا ہے کہ یہ قانون سازی فرد واحد کے لیے کی گئی ہے جس سے نقصان ہوگا۔ اب کوئی بھی نا اہل اور مجرم قرار دیا جانے والا کسی بھی سیاسی پارٹی کا سربراہ بن سکتا ہے جب کہ نواز شریف توقومی اسمبلی کے رکن بھی نہیں رہے۔ اس موقع پر قومی اسمبلی میں بڑا اودھم مچا اور حق میں اور مخالفت میں ارکان اسمبلی نے اپنے حلق کاخوب خوب استعمال کیا۔ نواز شریف کے اہم حواری خواجہ سعد رفیق نے اپنے زمانہ طالب علمی کی یاد تازہ کرتے ہوئے بڑی پرجوش تقریر کی اور فرمایا کہ ’’ بڑا لیڈر مائنس ہوتا ہے تو سیاست مائنس ہو جاتی ہے‘‘۔ انہیں شاید یاد نہیں رہا کہ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو مائنس کرنے والوں میں وہ بھی شامل تھے۔ لیکن اس کے باوجود پیپلز پارٹی کی سیاست ابھی مائنس نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنے گرو کی بات دوہرائی کہ چند لوگ عوام کی قسمت کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔ نواز شریف کی طرح ان کا حملہ بھی عدالت عظمیٰ کے ججوں پر تھا۔ بار بار یہ کہا جاتا ہے کہ نواز شریف 22کروڑ عوام کے نمائندہ ہیں جب کہ یہ بات غلط ہے۔ 22 کروڑ عوام نے صرف نواز شریف کو منتخب نہیں کیاتھا، دوسری جماعتوں اور رہنماؤں کو بھی ووٹ ڈالے تھے۔ یہ اور بات کہ ارکان اسمبلی کی اکثریت ن لیگ کے ہاتھ لگی۔ سعد رفیق اور ن لیگ کے دیگر رہنما کسی دن بیٹھ کر حساب لگائیں کہ 22 کروڑ میں سے کتنے ووٹ ن لیگ کو ملے اور کتنے ان کے مخالفین کو۔ بہرحال جمہوریت یہی ہے کہ اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی حکومت بنا لیتی ہے اور اقبالؒ کہتارہ جاتا ہے کہ ’’دیواستبدادجمہوری قبا میں پائے کوب‘‘ ہے۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے وزیر قانون زاہد حامد پر چوٹ کی کہ کل تک تو آپ پرویز مشرف کا دفاع کرتے تھے اور آج نواز شریف کا دفاع کررہے ہیں ۔ پرویز مشرف دور کے ایسے کئی لوگ مسلم لیگ ن میں شامل ہیں۔ نوید قمر نے بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت کوئی نا اہل شخص کسی جماعت کا سربراہ نہیں بن سکتا۔ جو شخص رکن اسمبلی نہیں بن سکتا وہ کسی پارٹی کی سربراہی بھی نہیں کرسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ نا اہل شخص باہر بیٹھ کر پارٹی سربراہ کے طور پر پالیسی طے کرے تو یہ مناسب نہیں ۔ لیکن ایم کیو ایم کا بانی الطاف حسین بھی تو لندن میں بیٹھ کر اپنی پارٹی پر اپنے فیصلے مسلط کرتا رہا۔ اب کیا نواز شریف بھی الطاف حسین کی سطح پر اتر آئے ہیں ۔ ویسے یہ کام خود آصف زرداری بھی دبئی میں بیٹھ کر کرتے رہے ہیں۔ رائے شماری کے موقع پر حکمران لیگ کے 50ارکان غیر حاضر رہے۔ رضا حیات ہراج نے تو صاف کہہ دیا کہ میں اپنے ضمیر کے خلاف کام نہیں کرسکتا، اپنے بچوں کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ اسی طرح سابق وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی نے بھی بل کے حق میں ووٹ دیا۔ حکومت کے حمایتی مولانا فضل الرحمن اور اچکزئی غیر حاضر رہے۔ عمران خان تو ویسے بھی ایوان میں آنا اپنی توہین سمجھتے یہں۔ ن لیگ اور اس کے حمایتیوں کی تعداد 213 ہے اور خود ن لیگ کے ارکان کی تعداد 188ہے جن میں سے 163 حاضر ہوئے۔ حکومت نے بھرپور حاضری کے لیے پورا زور لگایا ہوا تھا اور ارکان کو کئی سبز باغ بھی دکھائے تھے۔ یہی جہ ہے کہ عام طور پر کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے اجلاس ملتوی ہوجاتاہے لیکن گزشتہ منگل کو بھرپور حاضری تھی۔ اس سے ظاہر ہے کہ ارکان پارلیمان کو کوئی مفاد نظر آئے تو وہ ایوان میں آسکتے ہیں۔ بل کی مخالفت میں ووٹ ڈالنے والوں کو کیا کچھ ملے گا، یہ بھی سامنے آجائے گاے۔ بہرحال اب یہ معاملہ سینیٹ میں جائے گا جہاں ن لیگ کی اکثریت نہیں ہے۔ نواز شریف کی طرف سے پیپلز پارٹی سے مصالحت کی کوشش بھی جاری ہے۔